ہفتہ، 27 جون، 2015

اعتراف

7 تبصرے
اعتراف مشکل ہوتا ہےاور اس کا اظہار اس سے بھی کٹھن لیکن آج بہت سی آسانیوں ، سہولیات اور جون کے اس گرم دن میں اپنے خنک کمرے میں بیٹھ کر مجھے یہ مشکل کام کرنا پڑا اپنے ماتھے سے ندامت کا پسینہ خشک کرتے ہوئے جو نجانے کیسے پھوٹ پڑا - پاکستان سے باہر بیٹھ کر اس کے لیے فکرمند ہوتاہوں ، وہاں لوڈ شیڈنگ سے ساری رات بے حال اور بے چین ہوکر صبح کام پرجانے والے اپنے دوستوں کی تکلیف سے بے نیاز صحت ، صفائی کے جیسی بنیادی سہولیات کے فقدان سے پریشان اپنے محلے میں کچرے کے ڈھیروں سے اُٹھتے تعفن کو برداشت کرنے والے پاکستان میں رہنے والوں کو میں ماحولیاتی آلودگی پر لیکچردے سکتا ہوں ، شجرکاری کی ترغیب دیتا ہوں ، ان کو بے عملی اور غفلت پر سرزنش کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتا آج انھیں  کن کن مصائب سے گذرنا ہے ، بس میں لٹک کر سفرکرکے گھرجانا ہے یا ٹریفک جام میں طویل انتظارکی کوفت اورشورمیں اپنی ہمت کو  کس طرح قائم رکھنا ہے میں اس کا اندازہ نہیں کرسکتا - ان کے روزمرہ مصائب اور تکالیف کاکیونکر احساس کرسکتا ہوں اپنے لیے فرار کی راہ چُن کر کس منہ سے خود کو محب وطن پاکستانی کہوں لیکن میری منافت مجھے شہہ دیتی میں ایک ترقی یافتہ ملک میں بیٹھ کر کسی سیاستدان کی طرح بیانات دے کر حقِ وطن ادا کرلیتاہوں -مجھے صبر اور استقامت کا درس دےکر اپنے اخلاص کا سکہ جمانا آگیا ہے - اپنے ملک میں رہ کراُلجھتے ، روتے ، حالات سے لڑتے اپنے دوستوں پرمجھے یہ ثابت کرنا ضروری ہوجاتا ہے ان مشکلات میں ان کے ساتھ ہوں یہ الگ بات ہے کہ یہ ساتھ میں ائیرکڈیشن میں  بیٹھ کر ان دھوپ میں جلتے ہوئے بجلی نہ ہونے  والوں کا اسی انداز میں دے سکتاہوں-میں اعتراف کرسکتاہوں لیکن معاف کیجیئے گا پاکستان آکر آپ کے ساتھ ان کٹھن حالات میں رہ نہیں سکتا -

جمعرات، 11 جون، 2015

بابا اشفاق احمد اور میں

10 تبصرے

کچھ مصنف ایسے ہوتے ہیں ان کی تحریر کو پہلی بار پڑھتے ہی   قاری کا ان سے قلبی رشتہ بن جاتا ہے - ایساہی قلبی رشتہ میرا بابا(اشفاق احمد) سےان کا افسانہ گڈریا پڑھتے ہی بن گیا جس وقت میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ان کے افسانوں کا مجموعہ اُجلے پھول مجھے اسکول کے رستے میں قائم کتابوں کی دوکان دانش کدہ جو کہ راشد منہاس روڈپرہے وہاں سے ملا چونکہ اُس عمرمیں ماہانہ جیب خرچ ملنے لگا تھا لہذا اُس میں یہ کتاب باآسانی خریدلیکیوں خریدی معلوم نہیں شاید اُس کے سرِورق پربنے سفید اور پیلے پھول اچھے لگے یا مصنف کا نام مانوس تھا ، یا ٹی وی کے طویل دوارنیے کے ڈراموں کے حوالے سے شاید بابا کا ایک ڈرامہ ننگے پاؤں کچھ کچھ سمجھ میں آیا تھا یا توتا کہانی کے کسی کھیل نے متاثرکیا تھا، ماما سیمی کے مکالمے ذہن میں تھےیا کچھ اور یقین سے نہیں کہہ سکتا - گھر میں نسیم حجازی اور ابن صفی کی کتابیں موجود تھی لیکن افسانوی ادب کی کوئی کتاب نہیں تھی - اُجلے پھول میں پہلی ہی کہانی گڈریا پڑھی اور باربار پڑھی اور کافی عرصے تک اُس میں سے کچھ اور نہیں پڑھا - اس کے بعدبابا کے ڈرامے دیکھنے کا شوق ہوا اس سے قبل جو ڈرامے دیکھے تھے بس یونہی دیکھے تھے اُس وقت کوئی چوائس نہیں تھی اور تمام گھروالے ٹی وی ڈرامے دیکھا کرتے تھے - بابا کے جملے بڑے بھاتے تھے اُن کے کردار خود سے ہم کلام ہوتے تھے - وقت کے ساتھ بابا کی ذات میرے لیے گھر والوں سی ہوگئی اُن کا لکھا مجھے اپنے ارگرد رچا بسا نظرآیا - وہ دور میری خاموشی ،  تنہائی اور اُداسی  کا دورتھا اسکول میں دوست نہیں تھے جو ہم جماعت تھے ان کی باتوں میں دلچسپی نہیں تھی لہذا بابا کی ایک بعد ایک کتاب پڑھتا گیا - میٹرک کے بعد بانو آپا کو پڑھا تو بابا سے قربت اور محبت مزید بڑھی اب ان کی کتابیں پڑھتا ان کے گھر جا نکلتا داستان سرائے کے کھلے دروازے سے ہوتا اندر جا پہنچتا یہاں ٹی وی دیکھتے اثیربھائی ( باباکے چھوٹےصاحبزادے) ملتے آگے انیس اور انیق بھائی گفتگو کرتے نظرآتے ان کے ساتھ ممتاز مفتی تکیے سے ٹیک لگائے نیم دارز ہوتے- بانوآپا کھانے کا اہتمام کرنے میں مصروف ہوتیں ، میں بابا کو کھوجتا ان کے کمرے میں جا نکلتا جہاں ہوئے مطالعے میں مصروف ہوتے میں گھر کے ایک فرد کی طرح بے تکلف وہاں ایک کرسی پہ بیٹھ کراُن کی کتاب پڑھتا- یہ اکثرہوا اب بھی یہی محسوس ہوتا ہے میں نے بابا کی ہرکتاب ان کی یا بانوآپا کی موجودگی کومحسوس کرکے پڑھی ہے -مجھے بابا کی کتابیں نجانے کہاں کہاں سے ملتی رہیں لیاقت آباد کے ایک بُک اسٹال سے 1995 میں اُن کی پنجابی نظموں کی کتاب مل جاتی جو کہ نایاب ہے -کراچی میں فرئیرہال کے کُتب بازار میں بابا کے جاری کردہ رسالے داستان گو کا جنوری 1960 کا ایڈیشن پُرانی کتابوں میں مل جاتاہے تو لاہورمیں سنگ میل کے دفتر سے توتاکہانی یہ کہہ کردی جاتی یہ ہمارے پاس آخری کاپی تھی اور ساتھ ہی سیون اَپ کی بوتل پلائی جاتی تو میں جان لیتا ہوں میرا رشتہ بابا سے خاص    ہے اور اسے سب محسوس کرلیتے ہیں ویسے ہی جیسے میرے والد نے 7ستمبر 2004 میںپاکستان سے فون کرکے بتایا تھا " اوجہڑا بابا سی نا اشفاق احمد او آج فوت ہوگیا اے" مجھے اطلاع میرے والد نے فون پہ یوں دی جیسے کسی عزیزکی وفات کی خبرہو ویسے ہی جیسے انھوں نے فون پرمیری والدہ کے انتقال کی خبردی تھی - میں اپنے والدین کے سفرآخرت کے مراحل میں شریک نہیں ہوسکا ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی وہ اُن کی تدفین کا مرحلہ نہیں دیکھا لہذا مجھے وہ ہمیشہ اسی دنیا میں محسو س ہوتے ہیں میں کبھی یہ نہیں محسوس کرتا اُن کا انتقال ہوگیا ہے- میں یہاں ہوں تو لگتا ہے وہ پاکستان میں ہیں اور وہاں جاکے محسوس ہوتے وہ امریکہ گئے ہیں - یہی احساسات میرے بابا کے لیے ہیں  ہمیشہ ایسا ہی لگتا ہے وہ اسی دنیا میں موجود ہیں -ان کی کتابیں پڑھوں تو وہ مسکراتے ہوئے ساتھ آبیٹھتے ہیں - دلچسپ بات یہ ہے اُن کی کتابیں میں اُردومیں پڑھتا ہوں لیکن وہ گفتگو مجھ سے پنجابی میں کرتے ہیں میرے والدین کی طرح - "کاہنوں جان کھپانا ایں نکیاں نکیاں گلاں توں اللہ خیرکرے دا"یہ کہہ کرمسکراتے ہوئے میرے پاس سے کوئی کتاب اُٹھا کردیکھنے لگتے ہیں - 

منگل، 9 جون، 2015

ایک خبرہی توہے

2 تبصرے


جب کسی بچے کی علاج نہ ہونے کے سبب انتقال کی خبرپڑھنے سننے کو ملتی ہے ذرا سا ضمیرسراُٹھاتاہے پھرہم حکومت کوکوسنے دےکراسے خاموش کرادیتے ہیں - حالانکہ ان معصوموں کو جنھیں علاج کی سہولت نہیں مل پاتی ان کی موت کے ذمہ دار ہم بھی ہوتے ہیں ہم جن کو ان کی مدد کی توفیق نہیں -ہمارے اردگرد بے بس اورلاچار افراد سرجھکائے نم آنکھوں سے زندہ لاشیں بنے پھرتے ہیں ، دفاترمیں ، مساجد میں اورہمارے گھریلو ملازمین میں جو ہم سے کبھی اپنے بچوں کی بیماری کا ذکرکرتے ہیں تو ہم پیزا آرڈرکرتے ہوئے ، ٹی وی پردلچسپ پروگرام دیکھتے ، اپنی وش لسٹ میں نئے سیل فون کا اضافہ کرتے ہوئے ان کی بات پر اول تو توجہ ہی نہیں دیتے اور جوذرا سن لیں تو ان کی بہانے بازی سمجھتے ہیں- فی زمانہ ہمارے اپنے بڑے مسائل ہیں جن میں جدید انٹرٹیمنٹ آلات کا حصول اور رات کے لیے فاسٹ فوڈ کا انتخاب سرفہرست ہیں-
پاکستان میں بچوں کو علاج کی مفت سہولیات، سرکاری ہسپتالوں اور پرائیوٹ پریکٹس کرنے والے معالجوں کا حال جاننے کے لئے کسی اعداد شمار کی ضرورت نہیں یہ خبریں بن کے سامنے آجاتے ہیں بے کسوں اور ناداروں کا حال بیان کرنے - ہم حکومت سے کس قسم کی توقع رکھتے ہیں جب ہم خود کسی کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں اور ایک معیارِ زندگی اور رویہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں تو دوسرا دیگر اپنے سے کم آمدنی والے لوگوں کے لیے - ہم تعلقات اور مفاد ات میں گھرے مجبور لوگ ہیں اور ایسے ہی مجبور سرکار اور سرکارے نمائندے ، سیاست دان اور ارباب اختیار- یقین جانیں وہ بھی ہماری طرح اپنی ذات کے حصارمیںگرفتار ہیں ان کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں وہ کسی کی دادرسی نہیں کرسکتے فرق صرف اتنا ہے ان کا رویہ واضح ہوجاتاہے اور ہماری منافقت اور بے حسی پوشیدہ رہتی ہے - ہمارے لیے ہرموت ایک خبرسے بڑھ کرنہیں ہوتیہم آسائشات ، خواہشات اور خودنمائی کی دوڑکے گھوڑے ہیں سرپٹ بھاگتے جنھیں پیچھے رہ جانے، گرجانے والے، زخمی ہونے والوں سے کوئی سروکارنہیں ہوتا ہم رُکیں گے تب جب خود گریں گے -ہمیں تو مذہب ہمدردی ، بھائی چارے اور شفقت اور دوسروں کے درد کا مدوا کرنے کی تلقین کرتا ہے تو یہ کسی اور کے لیے ہوتاہماری ذات پہ اس کا اطلاق نہیں ہوتا- میں دیکھ کر  حیران ہوتا ہوں امریکی معاشرے میں جم اوکانر جیسے افراد کو    جواسکول  میتھ کا ٹیچر ہے اور بچوں کے ہسپتال میں بطور والنتئیر کام کرتا ہے اور ناصرف بلامعافاضہ خدمات سرانجام دیتا ہے بلکہ سب سے زیادہ یہاں خون کا عطیہ بھی دیتا لیکن اس کی خبر اس کے طالب علموں اور اسکول کے عملے کو نہیں ہوتی جب اچانک  اس ہسپتال اس کا ایک شاگرد جاتاہے تو وہاں اپنے اسکول کا بتانے پر لوگ اسسے جم اوکانرکا پوچھتے ہیں "تم اُسے جانتے ہوگے" طالب حیران ہوتا ہے یہاں لوگ کیونکر اُس کے میتھ کے سخت گیر اُستاد کوجانتے ہیں جم اسکول میں اُصول ضوابط والا سخت اُستاد ہے جو تعلیم میں "فن" کو نہیں مانتا اور اپنے طالب علموں کو سختی سے توجہ علم کی جانب مرکوز رکھنے کیتلقین کرنے والا جم سونے کا دل رکھتاہے اور اپنا وقت معصوم بچوں کے لیے وقف کرتا ہے - یہ ترقی یافتہ معاشرے کا فرد ہے جس سے ہم بے انتہا متاثرہیں جن کی زبان ، ٹیکنالوجی ، فیشن ، موسیقی ، آرٹ اور اندازِ زیست ہمں بھاتا ہے ہم اس معاشرے میں ڈانلڈ ٹرمپ کی دولت کوتو دیکھتے ہیں لیکن جم اوکانر سے لوگ ہماری توجہ نہیں پاتے کیونکہ وہ انسانی ہمدردی کا بے شمار جذبہ تو رکھتے ہیں بے تحاشا دولت نہیں - ہمیں انسان سے اشرف المخلوقات بنانے اور اپنی ذات کے حصار سے باہر نکالنے والی کوئی صداسنائی نہیں دیتی خواہ وہ پانچ وقت فلاح کا بلوا ہو یاکسی معصوم کی علاج نہ ہونے      کے سبب موت کی خبر-