منگل، 18 اگست، 2015

خزانے پہ سانپ

4 تبصرے

آج میرے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے ایک ایسی بات کی جس پر حیرانگی کے ساتھ تفکر کے در بھی وا ہوگئے - وہ ایک کتاب لے کرآئے اور کہا کسی کو چاہیے تو وہ یہ کتاب لے لے ، میں سمجھا  مستعار ہے  پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ نہیں کتاب آپ رکھیں پڑھیں اور مناسب سمجھیں تو کسی اور کو دے دیں - مجھے پوچھنا پڑا  آپ خود کیوں نہیں رکھ لیتے یہ کتاب اپنے پاس آپ کی کُتب کے ذخیرے میں اضافہ ہوگا ، جواب ملا کتابیں پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں  جمع کرکے رکھنے کے لیے نہیں میں نے پڑھ لی تو اب اس کا حق کسی اور پرہے کہ وہ اسے پڑھ سکے -میں سوچنے لگا جو میں نے کتابیں جمع کرکے رکھیں ان پر کس کس کا حق ہوگا اورمیرے جیسے کتنے ہیں جو کتابیں جمع کرکے ان پہ پُھولے نہیں سماتے اور اس علم کی دولت پر سانپ بن کے بیٹھے ہیں اور جانتے تک نہیں کہ علم بانٹنے کے لیے ہے پڑھ بُک شیلف میں سجانے کے لیے نہیں- یہ کون سخی ہیں جو جمع کرکے نہیں رکھتے پڑھا اور آگے بڑھا دیا کتاب کی خوشبو کے یہ سفیر بڑے دل والے ہیں- بزُعم خود علم دوست ،کتابوں کے شیدائی اور قدردان سمجھتے ہوئے ہم حق تلفی کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟ 

منگل، 11 اگست، 2015

ایک عام آدمی

2 تبصرے


ایک عام آدمی پرلکھنا مشکل ترین کام ہے ایسے عام آدمی پرجس نے کبھی خود کو خاص نہ سمجھا اور نا ہی خاص مراعات وسہولیات اپنے لیے چاہیں - پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے گھرکے پہلے بیٹے نے والدہ کے لیے بہت اہم ہوتے ہوئے بھی خود کو نازنخروں اورضدوں سے دور رکھا - والدہ کا معمول گھر کے سامنے واقع مسجد کا جھاڑولگانا اور شام کو وہاں روشنی کے لیے چراغ جلانا تھا توبناء کسے کے کہے نماز پنج وقتہ کو ابتدائی عمر  سے اپنالیا - ایک کسان گھرانے کے اس بیٹے نے تعلیم کا شوق نجانے کہاں سے پایا اور اس کے لیے والد کے ساتھ فصلوں کے دیکھ بھال کے ساتھ تعلیم کو جاری رکھنے کی درخواست بھی کی اور سخت مشقت کے ساتھ تعلیم حاصل کی-  جس گھرانے کے لوگوں کا شہر سے دور کا واسطہ نہیں تھا نا کوئی رشتہ دار شہر میں رہتا تھا وہاں کے فرد کا کراچی جیسے شہر میں آجانا ایک بچپن کے گاؤں کے دوست کی ٹیلرنگ شاپ پہ رات کو سونے کی جگہ پا کے اپنی جدوجہد کا آغاز - کراچی سے بڑے شہر میں گاؤں کا آدمی جسے اللہ پربھروسہ تھا قومی ہوائی ادارے میں ملازمت حاصل کرلیتاہے - زندگی کا محورگھرمسجد اور ملازمت  بنے - صبر ، استقامت ، شکر ، اطاعت اور اخلاق اُن کی ذات کا حصہ تا عمررہے   کہ  مذہب اُن کے لیے صرف عبادات تک ہی محدود نہ تھا - نرم خُو سے شخص کو شریک سفر ملی تو ایسی کے جس کی ذات میں شکرگذاری ،خدمت اور کفایت شعاری بھری ہوئی تھی اس عام سے شخص نے مجازی خدا بن کے حکمرانی نہ کی کھانے میں عیب نہ نکالا گھر میں اُونچی آواز میں بات نہ کی  بیوی نے اس کی نوبت بھی کبھی آنے نہ دی - سب کی ضرورتوں کا بھرپورخیال رکھا کس کو کیا پسند ہے اور اُس کےلیے کیا لینا ہے شاپنگ کرنا اوربھی صرف دوسروں کے لیے اُن کو بڑا پسند رہا کسی کو فرمائش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی سوائے ایک انوکھے لاڈلے بیٹے کے جس کو بازار جاکرچیزیں دیکھ کر مانگنے کی عادت تھی جس سے عاجزرہے "گھرسے بتاکرچلاکروجو چاہیے ملے گا باہر آکر یہ مت کیا کرو" - اولاد سے سختی صرف تعلیم کے معاملے میں برتی وگرنہ شفقت پدری سے مالا مال رکھا - غصہ آتا ہوگا لیکن دبانے اور اس کا اظہار نہ کرنے کا ہُنر آتا تھا - گلہ شکایت کرتے تو بھی اُنھیں خاص مانا جاتا وہ بھی عادت میں شامل نہیں تھا- ملازمت کے دوران بیرون ملک جانے کا اتفاق ہوا تو اپنی محنت اور لگن سے ادارے کی ترقی میں اپنا کرادر ادا کیا جب اکثرساتھیوں نے سنہرے موقع سے فائدہ اُٹھا کر وہیں رہائش اختیار کرکے ملازمت کو خیرباد کہا تولوگوں کے کہنے پربھی نہ رُکے کہ"مجھے جتنے عرصے کے لیے بھیجا گیا تھا وہ ختم ہوا اب یہاں رہنے اور اپنے ادارے کو اس ملک میں رہنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا نہ میں ترک وطن کرسکتاہوں "- اس بیرون ملک قیام کے دوران اپنی پوسٹنگ میں دو عہدوں پرکام کیا مینجر پاکستان سے آ نہ سکا تو اسٹنٹ مینجر اور مینجر کی ذمہ داریاں نبھالیں کسی کو کچھ کہے بناء اور تنخواہ ایک کی پائی وہ بھی کم والی یعنی اسٹنٹ مینجر کی جس کا علم اکاؤنٹنٹ کو تھا اوروہ اُن کی بلڈنگ میں رہائش پذیرتھا  اُس نے ایک بے تکلف محفل کہا آپ عادتیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ ادارے کی بھی بگاڑرہے ہیں کم  تخواہ پہ گذرا کیوں مینجر کی تنخواہ مانگیں تو جواب دیا "میری ضرورت کے لیے کافی ہے جو مجھے مل رہا ہے  وہ رقم ادارے کے کام آرہی ہے تو یہ اچھا ہے "- ماتحتوں پر افسری کا دبدبہ نہ رکھا اُن کے حصے کا کام باخوشی کیاجو شکر گذار ہوکے اس کا ذکرآج بھی سرِ راہ مل جائیں تو کرتے ہیں - تقریبوں میں ، دفتر میں ، گھر پہ ، خاندان میں کہیں بھی خاص مراعات کاتقاضا نہ کرنے والے عام سے انسان کے بارے میں کیا خصوصیت بیان کی جائے جبکہ وہ خود تاعمر مہمان خصوصی نہ بنا ہٹوبچو، باداب باملحاظہ کی صدا سننے کی تمنا نہ کی ، ناک منہ نا چڑھایا ، گھر پہ بادشاہ سلامت  نہ بنے ، تام جھام ، مرغن پکوان ، ہوٹلوں کی لذیذ کھانے ، مہنگے لباس سے گریز کیا ، اب سادہ سے آدمی کے بارے کیا یاد کرکے لکھا جائے کہ 12 اگست اُن کا یوم وفات ہے تو کہاں سے کوئی ایسا واقعہ یاد کیا جائے جہاں وہ خاص الخاص رہے - ایک عام سے آدمی نے نہ ملک وقوم کی خدمت کا دعویٰ کیا ، نہ علمیت ودانشوری سے محفل کو گرمایا - تنقید ی تجزیے نہ کرنے والے ، نہ ملک وقوم ، گھر، خاندان اور نہ اولاد پہ اپنے احسان جتانے والے کب خاص ہوئے ہیں کیونکر ان کو محض فرائض کی ادائیگی پہ خراج تحسین سے نوازا گیا ہے کب ان کو کسی گنتی شمار میں لایاجائے - جنھیں تعلقات کے  کام نکلوانے سے دورکا واسطہ نہ ہو اور اللہ توکل کی بُکل مار کے زندگی بسر کی ہو ان سرآنکھوں پہ بیٹھنے کی تمنا نہ رہی ہو اب ان کے لیے کیا کہا جائے- ہر اولاد کے لیے والدین خاص ہوتے ہیں میرے لیے بھی میرے والدصاحب خاص ہیں لیکن  میری خواہش  اور  دُعا ہے کہ ہمیشہ مسجد میں پہلے صف میں سرجھکا کر بیٹھنے والے میرے عاجز وسادہ دل والد کو  اللہ تعالٰی  اپنے قُرب سے نوازے، ان کو وہاں خاص مقام عطا فرمائے-

جمعہ، 7 اگست، 2015

اتنا توکرسکتا ہوں

11 تبصرے



میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جس کی کئی نسلیں مغربی پنجاب میں آباد چلی آرہی ہیں لہذا مجھے قیامِ پاکستان  کے وقت ہجرت کرکے آنے والوں کے مصائب مشکلات اور قربانیوں کے واقعات اپنے بزرگوں سے سننے کو نہیں ملے مجھے یہ سب کتابوں اور ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوا  میں اس عظیم ہجرت کے ورثے سے محروم ہوں اور اکثرسوچتارہا میرے بڑوں نے اس ملک کے لیےقربانیاں نہیں دیں ان کو یہ مملکتِ خداد گھربیٹھے مل گئی - وطن کی محبت کے بارے میں مشکوک ہوں کیا مجھے اس سبزہلالی پرچم سے ایسا والہانہ لگاو ہے جیسا اس کا حق ہے - میں کس طرح اس ملک کے لیے جذباتی ہوسکتاہوں - مجھے اسکول ، کالج  میں اپنے ہم جماعتوں اور دوستوں سے ان کے بڑوں کی قربانیوں کا سن کر اپنا آپ کمترلگتا رہا- جشن آزادی جوش وخروش سے منایا کیونکہ میرے بچپن کا دور ایک ڈکٹیٹرکا دورتھا لباس قومی تھا، اسکول کا یونیفارم شلوارقمیض تھا ، ٹی وی پرملی نغمے تھے ، جوش وجذبے تھے ، 14 اگست کی تقریبات تھیں ، پرچم کشائی کا اہتمام تھا، ملک سے محبت کا اسلام کے ساتھ بول بالا تھا میں اس سے متاثررہا لیکن  مجھے بعد میں تجزیہ نگاروں ، اخبارات اور دیگرمعتبر ذرائع سے معلوم ہوا وہ آرائیں جرنیل تو ملک سے اسلام سے محبت کا ڈرامہ کرتا رہا اس نے مجھے نئی راہ دکھائی کیا پاکستان سے محبت کا ڈرامہ کیا جاسکتا ہے؟ جیسے کہ پہلے بیان کرچکا ہوں میرے بزرگوں نے پاکستان ہجرت نہیں کی تھی تو مجھے اپنے جذبات اور اس ملک سے محبت کا اظہار با آواز بلند کرتے جھجک رہی ،  اس پر ستم یہ کہ میں کچھ عرصے  سے بیرون ملک مقیم ہو ں چاہے یہ قیام عارضی ہی سہی اور چاہے پاکستان کی چاہ دل کو گرماتی رہے اس کے موسم یاد آتے رہے مجھےان پہ کچھ شک ساہے ، میں نیٹ کے محب وطن کا طعنہ سن کررو نہیں سکتا ،   تو یہ راہ بہتر ہے میں  پاکستان سے محبت کی کسک کو ڈرامے میں ڈھال لوں ، جب کوئی اس کے خلاف بات کرے ، اس پہ تنقید کرے تو سلگتا نہ رہوں، بے چین نہ ہوں بلکہ محبت کا نغمہ الاپ لوں زیرِ لب ہی سہی - کسی کو پاکستان پرلعن طعن کرتے دیکھ کر اس کا حق مان لوں اس پر آنکھیں نم نہ کروں ، دل کو دلاسہ دینا سیکھوں کہ اس کہنے والے کا حق اس ملک پرزیادہ ہے ، میں اس پاک دیس کے کونے کونے سے محبت کروں ،اس کے بارے میں مثبت سوچوں تو کیا کمال ہے ؟ مجھے اس کا روشن رُخ ہی نظرآتا   رہے تو اپنی کم عقلی جانوں کہ مجھے میں حقائق کی سمجھ نہیں ، اس ملک سے اُمیدیں وابستہ کروں تو کیا بڑی بات ہے کون سا اس طرح میرا حق ثابت ہوگا ، پاکستان سے محبت کرنے کا  اختیار مجھے نہیں  میں نےمیرےبڑوں نےمیرےبڑوں نے کیا ہی کیا ہے ملک کے لیے - چودہ اگست پہ  خوشی کا مجھے حق ہی کہاں ہے ، میرے بڑے بزرگ بھی ہجرت کرکے آتے تو میں بھیایک سانس میں دس گالیاں اس ملک کو دیتا ، دوقومی نظریے کو دھڑلے سے غلطی کہتا تو خود کو سچا پاکستانی سمجھتا- میں  ہجرت کرنے والے بزرگوں کی دل سے عزت کرتاہوں ان کے احسان ، ان کی قربانی کی قدر کرتاہوں لیکن اُس دوسری تیسری نسل کا کیا کروں جو مجھے نادم کرتی ہے ، بتاتی ہے کہ میرا اس ملک پہ حق ہی کیا ہے ، میں نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا - تو صرف یہی ہےکہسینے پر پرچم کا بیج لگا لوں سر کو جھکالوں - اپنے دل کی ہوک پہ پرچم کے بیج کو آویزاں کرسکتاہوںمیں انصار  کا بچہ اتنا سا ڈارمہ  تو کرسکتاہوں 

بدھ، 5 اگست، 2015

خون کا عطیہ بہترین تحفہ

1 تبصرے


ہمارے ہاں 80- 90 فیصد افراد اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو ضرورت پڑنے پرخون دیتے ہیں اور 10-20 فیصد پیشہ ورخون دینے والے بیچتے ہیں - خون کا عطیہ دینے والے والوں کی تعداد نا ہونے کے برابرہے اس کا ثبوت حالیہ رپورٹ اور خبرہے کہ کراچی کے بلڈ بینک میں خون کی قلت ہے جس کی وجہ سے مریضوں جن میں  ہیموفیلیا اوربلخصوص تھیلسمیا کے مریض بچوں کو خون فراہم نہیں ہورہا ، تھیلسمیا خون کی کمی کی مورثی بیماری ہے جس میں مبتلا بچوں کو باقاعدگی سے خون لگتاہے اور ان کے والدین کویہ خون خریدنا پڑتاہے کیونکہ وجہ وہی ہے خون کے عطیات دینے کا ہمارے ہاں رجحان ہی نہیں- دنیا بھر خون کی عطیات دینے اور اس سلسلے میں آگہی کا کام ہورہاہے اور لوگ اس کارِ خیر اورانسانی حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک فرض کی طرح خون کےعطیات دیتے ہیں -
ایک خون دینے والے فرد سے تین مریضوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے جو اس میں شامل چاراجزاء
خون کے سرخ خلیات (packed cells)
پلیٹیلیٹس Platelets
پلازما Plasma
فیکٹرز (factor concentartes) مثلا فیکٹر VIII، فیکٹر IX وغیرہ
مکمل خون کی منتقلی کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اب مریض کو خون کا وہ جُز دیا جاتا ہےجس کی اُسےضرورت ہو۔ بہت کم ہی  مریض کو مکمل خون لگایا جاتا ہے۔
 ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے، ہر تندرست فرد ، ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے۔ جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے ۔ تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آ جاتا ہے ، اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ان کو جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوتی ہے۔ لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے۔
 14جون کو ساری دنیا میں بلڈ ڈونرز یعنی خون کا عطیہ دینے والوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ 1868 میں آسٹریا کے ڈاکٹر کارل لینڈ شٹائنر کے یوم پیدائش کے موقع پر اس دن کا اجراء کیا گیا تھا جنہوں نے خون کو چار گروپوں میں تقسیم کرنے کے صلے میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خون کا عطیہ خود بھی دیں اور اس کارِ خیر کی ترغیب دینے کا سماجی اور انسانی فرض بھی ادا کریں - سب سے بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنے سالگرہ والے دن بہترین تحفہ خون کے عطیے کی صورت میں دیں - اسی طرح اپنی زندگی کے اہم ایام کی تاریخوں پر اس عمل کو دہرائیں ، خون کا عطیہ دینے کے لیے اپنے دوستوں اور دیگراحباب کو اس جانب مائل کریں اور ان کے ساتھ مل کر   خون کے عطیات دیں -
مقامِ فکر یہ ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے بارے میں یہ خبرکہ بلڈ بینک خون کی قلت کا شکار ہیں تو دیگر چھوٹے شہروں کا کیا حال ہوگا جہاں طبی سہولیات کا فقدان بھی ہے  اور دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ خون کی عطیات دینے والے افراد بھی کم آبادی کے باعث کم ہے
سیاستدانوں اور حکمرانوں کے رویوں اور بے حسی کی شکایت کرتے ہم عوام بھی ان کی تلقید کرتے جاتےہیں اپنے فرائض اور سماجی ذمہ داروں کو بُھولتے جارہے ہیں - خودغرضی اور نفسانفسی میں دوسروں کے لیے ہمدردی کے جذبے سے محروم ، درختوں کی کمی ، اخلاقی اقدارکے زوال سے دوچار  ، مثبت رویوں  کی کمی اورسماجی ذمہ داریوں سے غافل انفرادی اور اجتماعی طورپر دیوالیہ اور بےحس تو نہیں ہورہے؟