جمعہ، 6 مئی، 2016

یقین اُسی در سے ملتا ہے

3 تبصرے

مجھے یقین تھا میں پھر بُلایا جاؤں گا
کہ یہ سوال بھی شامل میری دعاؤں میں تھا
یہ یقین بھی اُسی در سے ملتا ہے ، وہیں سے عطا ہوتاہے اور یوں میں پہلی حاضری (حج) کے چھ ماہ بعد پھر وہاں حاضرتھا یقین کی دولت سے مالامال ہونے 
اپنی روح کو سرشارکرنے اُس کے کرم کا شکریہ ادا کرنے - کراچی میں دودن کے قیام کے بعد عمرے کے دس دن کے قیام کے لیے میں اور میرا چھوٹا بھائی جمعرات کی صبح مدینہ منورہ روانہ ہوئے سینے میں آرام بچھا  - وہ مقدس شہر  آقاﷺ کا شہر ، شہرِجاں ، شہرِ قرار گنبدا خضرا کا حسین اور سہانا منظرسرشاری سی سرشاری تھی - ہوائیں مانوس تھیں ، لوگ آشنا سارے ، روح میں بسے منظر آنکھوں کے سامنے - وقت عصرکا اورحاضری کا نماز ادا کی جنت البقیع کی بیرونی دیوار سے فاتحہ پڑھی سلام پیش کیا اور خاتون جنت سیدہ بی بی رضی اللہ عنہا سے عرض کی آپ کی  سفارش درکار ہے - کرم کے جھونکے آئے اور ہم دونوں بھائی  مسجد نبوی میں ریاض الجنہ جا پہنچے یونہی اچانک بناء کوشش کے کہ سفارش ہی ایسی تھی یقین سا یقین تھا - دو نفل ادا کیے اور سلام کےلیے روضہء آقاﷺ پہ پلکیں جھکا دیں کہ ادب کا تقاضا اور مقام یہی ہے - آقاﷺ کے روضے کے سامنے جو کفیت ہوتی اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا - 
 میرے ماموں زاد بھائی کامران اور نعمان ریاض سے ہمیں ملنے دوسری صبح بروز جمعہ آپہنچے اور دو دن ہمارے ساتھ رہے - ہمارے پاس اب مدینہ منورہ میں دون تھے اچانک بخار نے آلیا ---- اب نہیں اس بار بخارسے نہیں گھبرانا چڑھتارہے اس کی کسے پرواہ -قیام کا آخری دن نیم غنودگی تھی بخارکی حدت میرے بھائی نے ماتھا چھوکرکہا میں مسجد جارہاہوں تہجد کے لیے تم آرام کرو----- نہیں میں چلتا ہوں آج ہی تو موقع ہے بیماری ہے ، بیچارگی کی اُوٹ ہے آج ہی تو عرض کا موقع ہے یہی تو کرم کی گذارش کے سنہرے پل ہیں چادر لپیٹی اور روضہ پاک پہ حاضرہوں تو التفات کا زیادہ مستحق بن سکتاہوں ، عرض کی آقاﷺ میں ناتواں ، کمزورہوں ، گناہ گارہوں ، شرمسارہوں ، بیمارہوں مجھے اللہ کے حضورآپ کی سفارش درکارہے آپ رحمت لعالمین ہیں - ندامت تھی ، نقاہت تھی ، ساتھ ہی اُمید بھی یقین بھی کرم ہوگا ---- آپ ﷺ کب کسی کوخالی بھیجتے ہیں - وہ حاضری وہ سلام بڑا پُرکیف رہا - یقین کی ، کرم کی دولت ملے تو جسم ہلکا پھلکا ہوجاتاہے - نماز فجرادا کی سلام وداع کیا گندخضرا کو - عمرے کی تیاری کے لیے جائے قیام پہنچے احرام باندھا میقات کی جانب چلے نوافل ادا کیے نیت کی - مکہ مکرمہ
پہنچے تو مغرب ہوچکی تھی سامان رکھ کے حرم شریف آئے ، نمازعشاء کے بعد عمرہ ادا کیا - وہ خانہ خدا جلوہ جاناں پھرسامنے اب پھر دل کو ، نگاہ سنبھالنا تھا کہ دوران طواف رُخ کعبہ شریف کی جانب نہیں کرتے ، طواف کیا تو میرے بھائی نے دیوارِ کعبہ کو چُھونے کا کہا ، ہم چل پڑھے ، قدم مطاف میں نہیں کہیں اور پڑرہےتھے ، پرکیسے لگتے ہیں معلوم ہوگیا - 
طواف کعبہ تھا ، بے خودی تھی ، اشکوں کی موج لگی تھی بہتے جاتے تھے یہ مقام ان کو پھرکہاں ملنا تھا - کرم مانگا ، سفارش مانگی تھی سب ملا اور یوں ملا کہ حیران کردیا - ایک سہانی صبح طواف کیا ، حطیم میں نوافل--- حطیم خانہ کعبہ کا حصہ اور میرا غلیظ وجود ایک جھرجھری آئی تھی کہ ایک باد سحرجھونکا سرگوشی کرتا ، تھپکتا گذرگیا - صفیں بننے لگیں نماز فجر کی ہم بھی کعبہ شریف کے قریب جابیٹھے لیکن --- اُٹھادیے گئے ملال آیا ہاں میں کہاں اوراللہ کہاں آپ کا یہ دربار میں کمی کم ذات کمینہ سرجھکا کے چل پڑے آجاؤ صف بن رہی ہے ساتھ کھڑے ہو، سامنے ملتزم تھا تیسری صف تھی امامت ڈاکٹر شیخ بلیل کررہے تھے
لہن تھا قرآن کریم کی تلاوت ، حلاوت ، شرینی ، سرشاری - نماز یوں بھی ادا ہوتی ہے؟ یہ قرب مجھے مل سکتا ہے اے اللہ میں یہاں ملتزم کے سامنے اتنا قریب ؟
لگا کوئی ہاتھ پکڑے کے نماز کے بعد ملتزم تک لے گیا ، میرے ہاتھ تھے؟ کعبے کا دروازہ میرے بھائی نے میراہاتھ اُونچا کیا کہ میں ملتزم کو چُھو سکوں ، کسی نے پیچھے سے دھکیلا سینہ دیوارکعبہ سے جالگا --------- سب اُڑچکا تھا سب غبار ہو گیا سب پیچھے رہ گیا ، میں تھا میرارب تھا - 
وہاں سے کب ہٹا کیسے ہٹا یادنہیں پھر وہی سرگوشی وہی ہوا کا جھونکا آیا دیکھ لو میں تم سے کتنا پیارکرتاہوں ------ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر یہ یقین دلایا مجھے میرے اللہ نے، یہ یقین کی  دولت لے کے میں آیا ہوں کہ --- اللہ ہم سے بہت پیارکرتاہے ، بہت پیار کرتا ہے --- مجھ سے آپ سے ، ہم سب سے ، میرے جیسے کم فہمی اور کورچشم کوپاس بُلا کے ، پاس بیٹھا کے بتاتا کہ میری سمجھ میں یوں ہی آناتھا اور سمجھ والوں کو آپ سے شکرگزاروں کو وہ آپ کے شہرمیں بیٹھے بٹھائے سمجھادیتاہے-