ہفتہ، 11 نومبر، 2017

خلوصِ دوست داری

1 تبصرے
موسم کے تیور اچانک بدلے اور سردی کی لہر آگئی ابھی سب ہی گرم کپڑوں کو نہیں نکالا تھا لہذا
صبح ایک اضافی پرت کی ضرورت تھی الماری میں تلاش کے دوران جو چیز ہاتھ لگی وہ ایک
دیرینہ دوست کا تحفہ تھا ہُوڈ والی فلیس جو مجھے جیکٹ کے نیچے پہننے سے صبح کی سرد ہواسے محفوظ رکھ سکتی تھی اسے ہینگر پہ شرٹ اور جیکٹ کے ساتھ  لکٹا یا اور اطمیان کے ساتھ سوگیا - صبح جب اُس فلیس کو پہن کے گھر سے نکالا تو اُس دوست کا خیال شدت سے آنے لگا جو ایک طویل عرصے سے دُوبئی میں مقیم ہے جس سے دوسال سے رابطہ نہیں ہے - اسکول آف آرٹس
میں ملنے والا یہ دوست شہبازاحمدغیاث اس صبح اس فلیس کے ساتھ مجھ  سے مصافحہ ومعانقہ کرنے لگا اس سرد صبح اس کا خُلوص اور محبت اور طویل عرصے کی دوستی یاد آتی رہی سولہ سترہ سال کی عمر میں ہوئی دوستی جس میں خُلوص کے ساتھ جھگڑے بھی رہے ، اسکول کے کام کا دباؤں ایک تخلیقی کام کے لیے تبادلہ خیال ، کام پر کڑی تنقید ہوتی تھی - شہباز نماز کا بے حد پابند رہا ہمیشہ سے اور میری سستی اور غفلت پہ سرزنش کی - آج اس دوستی کے قائم رہنے اور وقتی رابطہ منقطع ہونے کے باوجود صرف ایک وجہ وہ دوستی میں بھلائی چاہنے کا جذبہ وہ خیرخواہی اور خُلوص ہی ہے جو اُس وقت سے اب تک موجود ہے -
ہم فیس بُک کی دوستیوں اور گلوبل ویلج کے دور میں آپہنچے جہاں فوری رابطے ممکن ہیں اور
دوست بنا نا آسان ہوگیا لیکن ----- نبھانا مشکل - دوستی میں خیرخواہی کی بجائے مصلحت اور اپنے کام سے کام رکھنے کا رواج ہے - فُس بُک کے دوستوں کو ٹُوکا نہیں جاسکتا کسی بات پر روکا نہیں جاسکتا-آپ کچھ کہیں اور دس باتیں سننے کو مل جائیں گی اور چاہ کر بھی نہیں بتا سکتے کے بھائی اس میں آپ کی تذلیل نہیں بلکہ اصلاح مقصود ہے - اب  اس دوست داری میں وقت گزاری کا کھوٹ شامل ہوگیا - آپ لائیک کا بٹن دبائیں یا نظر انداز کریں آپ کا دوست کس سمت جارہا ہے آپ کی بلا سے بھاڑ میں جائے -
میں اپنے فیس بُک کے دوستوں کی فہرست پہ نظر ٖڈالتاہوں تو مجھے صرف چند ایک نظر آتے جن کو ٹُوک سکتا ہوں اور جنھوں نے مجھے سرزنش کی غلطی پر - وہ چند احباب جن سے شدید جھگڑا کیا دل میں خُلوص اورباہم خیرخواہی کے سبب سینکڑوں میں صرف چند- ہم خیرخواہی ، فلاح اور خلوصِ دوست داری  کی دولت سے محروم ہوتے جارہے ہیں وہ دوست فیس بُک کے ہوں یا گلی محلے کے، ملازمت کے اور اسکول کالج کے 

بدھ، 13 ستمبر، 2017

لاہور کا درویشانہ رنگ

4 تبصرے
جولائی کے اولین دنوں کی اتوار کی صبح لاہور سنولایا ہوا تھا نیم خوابیدہ سا چھٹی کی صبح کا اونگھتا ہوا لاہور - لوئر مال سے ڈیوس روڈ تک سڑکیں قدرے خالی تھیں - میں لاہور سے ملاقات کے لیے اپنی عارضی قیام گاہ کے خنک  کمرے میں جا پہنچا- شہر کو دیکھنے  ، ملنے کے لیے میرے پاس اُن مغل بچوں سی نگاہ تو نہ تھی جو اس پہ فریفتہ تھے - ابھی کچھ دیر انتظار کرنا تھا شہر کے جاگ اُٹھنے کا پھر ایک دیرینہ دوست اپنا تروتازہ چہرہ لیے آ موجود ہوئے گاؤں کے اس معصوم باسی سے پہلی ملاقات اس  کی سادگی کے رنگ میں رنگی
میں دارالشکوہ سی عقیدت کی دولت سے محروم لیکن اس دن اس کے جذبوں کی آنچ کو محسوس کررہا تھا اس درویش شہزادے کی کچھ تڑپ دل کو آلگی تھی میں جلد ازجلد داتا صاحب حاضری کے لیے جانا چاہتا تھا اور اپنے رہنماؤں کا منتظرکہ جن کی کچھ امانت میرے پاس تھیں  پہلے وہ ان کے حوالے کرنا ضروری تھا - انتظار ختم ہوا کوچوان آپہنچے جدید عہد کے لوگ جو خلوص اور مہمانداری کی روایت سے پیوستہ ہیں،  پُرتپاک تبسم تھا ، تاخیر کی معذرتیں تھیں سواری اور مہمان نوازی سمیت
شہر اب چند گھنٹوں میں جوش اور جذبے سے لبریز بیدار تھا ، ہوا میں گرماہٹ تھی لیکن بیزارکردینے والی کوئی بات نہیں
داتا صاحب میں ایک دوست دیر سے منتظرتھا اپنی محبت اور خلوص لیے -
داتا صاحب کے دربار میں کچھ ہے ایسا کچھ خاص جو تحفظ اور اپنائیت کے ساتھ کُھلی بانہوں سے گلے آلگتا ہے - یہاں دو اور احباب بھی آپہنچے - کچھ وقت وہاں رہے - اب ایک بار پھر شہر کی سڑکیں تھیں کوچوان کی مہارت تھی جو پُرہجوم شاہراہوں پہ سواری اُڑے جارہا تھا - دوپہر کا کھانا لاہور کا مخصوص خوش خوارک ماحول میں اپنے پسندیدہ بلاگ اور بلاگرز کی باتیں کیں - وقت بھاگ رہا تھا-
وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ
   پھرفضاؤں میں وقت عصر کا رنگ تھا مسجد کا صحن اس شہر کا ایک اور روپ-  دن کے زوال  کا یہ  وقت لاہور پہ مجذوبانہ  حُسن لے کر اُتررہاتھا ، سکون آوار اور پُرکیف سا یہ صوفیائے کرام کا شہر وقت کے ساتھ بھی لگا  اور تاریخ کا ورق بھی-
یہاں ایک کم گو صوفی منش کی ملاقات کی درخواست موصول ہوئی انکار ممکن نہ  تھا- اس لاہور کے باشندے سے پہلی ملاقات  تھی شام کی چائے کی دعوت اور اس کم سخن میزبان کی خلوص بھری مسکراہٹ تھی- شہر کا ماحول شاہ حُسین کی کافیوں سا لگا اس وقت-  دھمیے لہجے میں گفتگو کرتےشہرِ یار تھے پھر مغرب کا وقت
عرش منور بانگاں  ملیاں 
سنیاں.... تخت  لاہور
خوش قسمتی یہ ہے کہ فلاح کا بلاوا آئے آپ اپنے دوستوں کے ساتھ اس پر لبیک کہیں - مغرب کا وقت دن کا میرا پسندیدہ ترین وقت ہے جو مسجد کی سمت جاتے ہوئے باغِ گل ، قابیل اور روشن جمال کی ہمراہی جو یوں چلے اس جانب کے دل باغ باغ ہوگیا ذہن میں آقاﷺ کا فرمان مہکنے لگا
"آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے"

رات کی ابتداء تھی ایک ٹریفک سگنل پہ گاڑی رُکی وہاں ایک ملنگ کھڑکی سے آلگا نجانے کون تھا کوئی اصل فقیردوریش یا رنگ باز گاڑی چل پڑی ملنگ نے ایک جملہ کہا ------------- سانس بھاری سی محسوس ہوئی ایک جملہ سرگوشی کا سا تھا معلوم  نہیں میرے ہمراہ دو لوگوں نے وہ سنا بھی یا نہیں اس پر توجہ دی بھی - وہ جملہ وہ سرگوشی اُن کے لیے نہیں تھی وہ صرف میرے لیے تھی - لاہور کی سرگوشی ملنگ کا ایک جملہ تھا حکم کی صورت میں  رات بھر سوتے جاگتے ملنگ کا کہا جملہ سنائی دیتا رہا -
صبح کریم کا باریش  گاڑی بان آپہنچا رات کا اختتام ہوا لاہور سے رُخصت ہونے کا وقت اس نورپیرکا ویلا سڑک کنارے
ایک خرقہ پوش ملنگ بیٹھا تھا اتفاق تھا یا کچھ  اورگاڑی وہاں سگنل کے باعث رُکی  ملنگ  نےمجھے دیکھ کے زیرلب  کچھ کہا ،اُٹھا نہیں،  کچھ مانگا نہیں لیکن ---- لاہور کی سرگوشی لاہور کا پیغام وہ  جو میرے لیے تھا پھر مجھ تک پہنچا یاگیا-لاہورکی  اس سرگوشی سے سوچ کی کونپلیں پُھوٹ رہی ہیں حرفِ دعا بن رہی ہیں قبولیت کی منتظر



ہفتہ، 9 ستمبر، 2017

اصل Socialization اور Social media

1 تبصرے
اصل Socialization اور Social media کی دوستیوں کا فرق اصلی اور کاغذی مصنوعی آرائشی پھولوں سا ہے
اصل میل جول سے جو احساسات ، گفتگو اور باہمی محبت اور رشتے استوار ہوتے ہیں ان کی مہک سے زندگی معطر ہوتی ہے- جبکہ Social media کی دوستیاں اس کا متبادل نہیں ہوسکتیں ہاں وقت گذاری اور گپ شپ تو ہوسکتی ہیں لیکن ایک
منصوعی آرائش کی مانند - ان پہ بات بے دھڑک لکھی کہی جاسکتی دوسرے کے احساسات کی پرواہ کیے بغیر چونکہ لکھے    لفظ ہوتے ہیں ان میں تاثرات کا عمل دخل نہیں ہوتا ، دوسرے کی چہرے کے تاثرات کے مطابق لہجے کو نرم اور الفاظ کا مناسب  چناؤ ممکن نہیں ہوتا لکھے جانے والے  جملے ہوتے ہیں  اور محض عمل اور ردعمل ہوتا  ہے جو اکثر بہت شدید اور غیرمتوازن ہوجاتا ہے جوکہ اکثر ہم  Social media پر  سیاسی اور مذہبی مباحثوں دیکھتے ہیں - اکثر ان میں ایک بات کہی جاتی ہے "سچ کڑوا ہوتاہے"
مجھے اس جملے کی سمجھ نہیں آتی سچ کیسے کڑوا ہوسکتا ہے اس کی تو ہمیں تلیقن کی گئی ہے  ایک مسلمان کی تو شناخت ہی سچ وحق ہے - بات یہ سچ کہنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے  سچ نہیں -

نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: 
اِنَّ الصِّدْقِ یَھْدِی اِلَی الْبِرِّ وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَںَّۃِ (متفق علیہ) 
’’بے شک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘ 

ہم  نے سماجی  میل جول کم کردیا اس کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں اور سوشل میڈیا کو زیادہ اہمیت اور وقت دے رہے ہیں فیس بُک اور ٹوئیٹر پہ زیادہ ایکٹیو ہیں
میڈل کلاس کی  قناعت اور اخلاقیات  پر سوشل میڈیا اثر انداز ہورہاہے - کھانے کے لیے مہنگے ریستوران  اور ان کی تصاویر اور اس سے دیگر لوگوں کا متاثرہونا
قدرے  تشویش ناک ہے ہم دکھاوے کے جانب  غیر شعوری طورپر مائل ہورہے  ہیں - شاید کچھ وقت لگے ہمیں  اس بدلتے وقت کو سمجھنے اس کا ساتھ اپنے اُصولوں
اور سماجی ماحول اور اخلاقیات  کو ساتھ لے کر چلنے میں - ہمیں سوشل میڈیا  کے تعلقات  اور  اس پر اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا اور خود کو اس کا اس قدر عادی نہیں بنانا ہوگا کے ہمارے  دیگر تعلقات  متاثر نہ ہوں  ہم سوشل میڈیا کےان منصوعی آرائشی پھولوں سے زندگی  بھر رہے لیکن اصل پھولوں سے دور ان کی مہک سے دور ہوتے جارہے ہیں جو اصلی اور سچے تعلقات  ہیں جن سے زندگی کی رونق اور خوبصورتی ہے - 

منگل، 28 مارچ، 2017

موم کی گلیاں

0 تبصرے
ان دنوں شہد سے عشق سا ہوا ہے - اس کی افادیت قرآن کریم میں  اس کا ذکرحضوراکرم صلٰی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا اسے پسند فرمانا مدنظررہتا ہے - شہد کے ساتھ شہد کی مکھیاں بھی یاد آئیں اور ان کے متعلق بانوقدسیہ کی کہانی موم کی گلیاں- 
شروع بہار کے دن تھے - سردیوں کی خُنکی اورٹھنڈ اب بھی صبح شام رینگتی ہوئی  کمروں میں آجاتی تھی-آتشدان روشن کرنا پڑتا اورگرم کپڑوں کا سہارالیا جاتا- پہاڑوں میں بہار کچھ اور ہی رنگ لاتی - فضا میں ننھا ننھا بور، نامعلوم سی خُوشبوئیں اور ہریالی کی بُوباس اُڑتی رہتی - بہار پہاڑوں پر بھرپُورزندگی کا پیام لے کرآتی ہے-برف کی سلیں پگھتی ہیں 
چشمے پُھوٹتے ہیں ، سردیوں کے سوئے جانوراپنی طویل نیند سے جاگتے ہیں تو خوابیدہ وادیاں جاگ اُٹھتی ہیں -مجھے پہاڑوں کی بہار سے اس لیے بھی زیادہ محبت ہے کہ یہاں انسانوں سے زیادہ جانوروں پہ بہارآتی ہے-اور زندگی کی گہماگہمی میں اضافہ ہوجاتاہے-
صبح میری آنکھ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کُھلی فضا میں خیروبرکت اور سکون وراحت کا ایسا شیرگرم پیالہ تھا کہ اترائی میں کُھلنے والی کھڑکی کھول کرکھڑا ہوگیا-صبح کی ہلکی دھوپ اخروٹ کے پتوں میں رینگ رہی تھی- اچانک میری نظرسامنے شہد کے چھتےپرپڑی-اگرمجھے شہد کی مکھیوں کا کچھ تجربہ نہ ہوتا توشاید میں پٹاخ سے کھڑکیاں بھیڑلیتا- لیکن آج میرے سامنے قدرت کی ایک مخلوق تھی جوصبح شام محنت کرتی ہے اورایسی منظم زندگی بسرکرتی ہے جہاں سوشلسٹ ، کمیونسٹ یا جمہوریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- یہاں کی ڈکٹیٹر ملکہ قدم قدم پرفرمان جاری کرتی ہے- لمحہ بہ لمحہ چھتے کی زندگی کو سنوارتی ہے - لیکن بڑے علم کے ساتھ ، نہایت انکساری کے ساتھ -اخروٹ کے پتوں میں ہولے ہولے بھنبھناتی تقریباَ ساٹھ ہزار کی آبادی محوِگردش تھی- کوئی سپاہی اس ٹریفک کے لیے مقررنہ تھا- پھربھی یہ جانیں اپنے اپنے کاموں میں بلا کی سرگرمی دکھا رہیںتھیں-سورج کی کرنیں تیکھی ہوچکیں تھیں اور اب چھتے کا رنگ قدرے سیاہی مائل نظرآرہا تھا  اورگھومتی ہوئی مکھیوں کے پرچمکنے لگے تھے-

اتوار، 26 مارچ، 2017

میرا کراچی

0 تبصرے
سمندر کے کنارے بسا شہر جس کا ہرشخص سمندرسا جوش اورطاقت لیے نظرآتاہے محنتی اورجفا کش-  اس کا حُسن اس کے قدیم باشندے پارسی ، میمن ، کاٹھیاواڑی ، بوہری اور مچھیرے ہیں جن کے رنگ سے سانولا سلونا بانکا بنا- یہ پاکستان کا بڑا اور کماؤ پوت ہے ایک بڑے کنبے کو بسائے بیٹھا ہے آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا شہر  ذمے داریاں اُٹھائے ہوئے ہے - اس نے حق ادا کیے لیکن اس کو مانگنے کی تہمت سہنی پڑی تو کبھی لسانی تعصب کا الزام برداشت کرنا پڑا اس کے باسیوں نے اس کے وقار کو مجروح کیا لیکن سمندرسے سینے میں چُھپا گیا ، دُکھ کو پی گیا یہ عبدل الستار ایدھی ہے یہ حرف شکایت سے نا آشنا ہے - قائد اعظم محمد علی جناح کا مسکن ہے بڑائی تو دکھائے گا -
یہ چھیپا کا دسترخوان ہے کھلانے والا ، یہ فاطمہ ثریا بجیا کا پاندان ہے مہکتا ہوا، یہ کوئٹہ عنابی ہوٹل کی مہکتی چائے کی پیالی سا گرم جوش ہے - اس کو جون کی تپتی دھوپ میں دیکھو تو پسینے سے شرابورکڑیل جوان ہے - میمن مسجد کی فجر کی اذان ہے،  یہ دسمبر کی راتوں میں خُشک میوے لیے پختون بن کرٹھیلے کی گھنٹیاں بجاتا  ہے - یہ عبداللہ شاہ غازی کے مزارپہ سجا عقیدت کا پھول ہے- اس کی کئی ادائیں ہیں کئی روپ ہیں یہ تہذیب وتمدن سے آراستہ دلی اور لکھںؤ کا دبستان ہے -
میراکراچی جہاں آنکھ کھولی ، پہلا قدم اُٹھا ، جزدان لیے احتشام الحق تھانوی کی جامعہ مسجد پہنچا ،  بستہ گلے میں ڈالے قائد کے کے مزار کے منظر سے بسے اسکول کی راہ لی ، رنگوں کو سمیٹ کر اسکول آف آرٹس گیا ، گرم دوپہروں میں گھوما ، خُنک راتوں کو شہر میں دیرتک پھرتا رہا - یہ میرا کراچی ہے دنیا کا واحد شہر جسے میں اپنا کہہ سکتا ہوں جو میری راہ تکتا ہے ، میرے بھتیجے قاسم  کی طرح کہتا ہے "اچھا شام کو آجائیں" اب اسے کیسے بتایا جائے کہ  ہجرت کا موسم ابھی ختم نہیں ہوا -

ہفتہ، 17 دسمبر، 2016

تری یاد رُوئے مریم

2 تبصرے
دسمبر سرد ہوائیں اور یادیں لے کرآتاہے لیکن یاد وہ کریں جو بھولیں  - ان دنوں میں علی الصبح  جب اندھیرا ہوتا ہےکام پہ نکلتا ہوں بہت کم لوگ اس وقت سڑکوں پہ ہوتے ہیں مجھے محسوس ہوتا ہے میرے ساتھ میری والدہ چلی آرہی ہیں بس اسٹاپ تک ویسے ہی جیسے میں ساتویں جماعت میں تھا اور اپنے بڑے بھائی کے میٹرک کرنے کے بعد دور دراز اسکول تنہا جانے لگا 11 سالہ بچہ سردیوں کی صبح اندھیرے میں گھر سے نکلتا تو امی ساتھ آتی بس اسٹاپ تک - 22 دسمبر امی کے دنیا سے جانے کا دن ہے لیکن ہماری زندگیوں سے جانے کا نہیں - ماں باپ دنیا سے چلے بھی جائیں تو اولاد کی زندگی میں ہمیشہ رہتے ہیں خون کی گردش کی طرح محسوس ہوتے ہیں ، موذن کی اذان میں سنائی دیتے ہیں ، میری لیے تو امی  نظرآنے کا بھی انتظام کرگئیں میری بڑی بہنوں کی صورت میں جن کی شفقت کے سائے مجھ سے کم ہمت کو گرم سرد سے بچائے رکھتے ہیں-  امی کو کبھی شوق اپنائے نہ دیکھا ، نہ  فون پہ لمبی گفتگوکا شوق ، نہ شاپنگ کا ، نہ ٹی وی دیکھنے کا اور نہ ہی آرام کا - گھر کی بڑی بیٹی تھیں تو گھریلو کام کم عمری سے سیکھے اورکیے اس کے علاوہ ایک ترکھان کی بیٹی ہونے کے باعث بہت سے مردوں والے کام بھی با آسانی کیے لکڑی کا کام ، بجلی کا ، پلستر اور دیگر مرمت کے کام - میرے والد کافی عرصے تک ملک سے باہر قومی ائیرلائین میں ملازمت کے باعث مقیم رہے امی نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی وجہ  پیسے کی بچت اور اپنے گھر کی تعمیر تھی جس کی نگرانی وہ خود کرتی رہیں چھوٹے ماموں کے ساتھ مل کر-
امی شیرکی نظر سے دیکھنے کی قائل تھیں پٹائی کی ضرورت ہی نہ رہتی ہاں سونے کا نوالہ کھلانے کی بجائے سادہ کھانا خود بھی کھایا اور ہمیں بھی  اس عادی بنایا زبان کی چسکے غذا اور غیبت دونوں سے دور رہیں - محتلف مزاج کے اولاد کو پالنا اور ہم آھنگ اور یکجا رکھنا اُن کو بخوبی آتا، کبھی ایک سے دوسرے کی شکایت نہ سنی اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی مجھ سے روتو نے جب کچھ کہنا چاہا جواب  آیا " میں موجود ہوں اور دیکھ رہی ہوں کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی خاطرجمع رکھو"
امی کو میک اپ کرتے نہ دیکھا ان کی سادگی ان کا وقار تھی - گہنے پاتے ،تیز رنگ کے ملبوسات ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتے اور نہ ان کی وہ محتاج تھیں - امی شاید پیدائشی ماں تھیں ہماری ہی نہیں میاں جی ( ہمارے نانا) بے جی ( نانی) اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں ، نندوں اور دیوروں کی بھی - ان کو جہاں نرمی سے بات کہنی ہوتی وہ بھی جانتی جہاں سخت لہجہ اپنانا ہوتا وہ معلوم تھا ہمارے ساتھ چھوٹے ماموں کو بھی ڈانٹ پڑتی جو بی بی کہہ کے امی کے آگے پیچھے ہوتے
میرے نانا اور خالہ ماموں امی کواکثر بی بی کہہ کرپکارتے - امی  مجھ کمزور اور کم ہمت کو امریکہ بھیج کے میرے پیچھے دنیا سے گئیں میں ان کے آخری سفر کو نہ دیکھ سکا -  جس گھر ڈولی میں آئیں تھیں اسباب یوں بنے کے کراچی سے اپنے سسرالی گھر  گئیں وہیں سے دنیا سے رُخصت ہوئیں اور گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئیں -اللہ کی ذات بڑی دانائی اور حکمت والی ہے اُس نے مجھے امی کو اُس روپ میں کفن میں لپٹے ہوئے نہ دکھایا کہ مجھ سا کم ہمت کہاں تاب لاتا
تری یاد روئے مریم کہ مجھے اللہ کے گھرکی زیارت نصیب ہوئی تو روپ ساتھ بھیجا میری بڑی بہن کی صورت -
صاحبوں سچ کہوں تو میرے بڑے بہن بھائی ( ایک بھائی عمر میں چھوٹا لیکن عمل میں بڑاہی ہے)  مجھے ایک بچے کی طرح پال رہے ہیں یہ امی کی تربیت اور اللہ کا کرم ہے اس کی عطا ہے


ہفتہ، 23 جولائی، 2016

عثمانی طرزِ تعمیر کا شاہکار امریکہ میں Diyanet Center of America

3 تبصرے
ان دنوں ترکی خبروں میں ہے ہم نے بھی 15 جولائی کو وہاں کی ناکام فوجی بغاوت اور ترک عوام کا جذبہ دیکھا طیب اردگان کی مقبولیت دیکھی - اگلے دن ایک ترک طعام گاہ میں  ایک دوست کے ساتھ گئے تو ان سے میری لینڈ میں واقع ترک مسجد جوعثمانی طرزِتعمیر کا نمونہ ہے کا ذکرسنا ارادہ ہوا کیا جائیں اور دیکھیں جو تصاویر میں اتنی شاندار ہے اصل میں کیا قابل دید ہوگی - ہم نے ورجینا میں ایک دوست مدثرمحمود سے رابطہ کیا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا اُن کے مطابق ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں لیکن وہ اب تک وہاں نہیں گئے لیکن ہم آجائیں تو مل کر چلیں تو ہم کو اور کیا چاہیے تھا اس سنہری پیش کش کو سن کر نیکی اور پوچھ پوچھ - یوں بھی ہم مجرد آدمی کون سا اجازتوں وضاحتوں منتوں اور پس وپیش کا معاملہ تھا لہذا جاب پہ بتایا کہ ہم کو ایک دن کی چھٹی درکار ہے جو منظور ہی تھی بس رسمی اطلاع دینی تھی -
 آن لائن واشنگٹن کے لیے بس کی بُکنگ کروائی اور جمعرات کی شام وہاں تھے ورجینا سے دوست صاحب لینے کےلیےآئے رات ان کے گھر قیام کیا صبح ناشتے اور گفتگو کا سلسلہ 10بجے تک چلا پھر روانہ ہوئے،یہ اسلامی مرکز 2003 میں قائم کیا گیا جس کے لیے ترک حکومت نے تعاون کیا اس میں گیسٹ ہاوس ، میوزم ، زمین دوز کار پارکنگ موجود ہے
  میری لینڈ کا فاصلہ  وہاں سے 35 - 40 میل ہے - اُس شاہراہ پہ پہنچے تو مدثرنے ہمیں ایڈرس پہ نظرڈالنے کا کہا -- لیکن تو میں سامنے دائیں جانب کچھ فاصلے پہ اس مسجسم حُسن کودیکھ رہا تھا --- سبحان اللہ-
یہ جولائی کی ایک دوپہر تھی شفاف آسمان تلے دمکتی ہوئی مسجد کی عمارت کسی پوسٹ کارڈ تصویر سی لگ رہی تھی -


مسجد میں داخل ہوتے ہیں صحن میں وضو کی چوکی تھی جس پہ فوارہ آویزاں تھا
  
    وہاں سے ہی مسجد سے تلاوت قرآن پاک کی آواز آرہی تھی لحنِ داؤدی میں سورہ کہف کی تلاوت ہورہی تھی
مسجد کی آرائش اور فن خطاطی کو دیکھ کر مسجدںبوی ﷺ یاد آگئی - 

ایک پُروقارجواں سال قاری اور ان کے ساتھ دو اور افراد بیٹھے تھے - وقت پہ خطبہ ہوا پھر نماز اور اس کے بعد حالیہ فوجی بغاوت میں
شہید ہونے والے افراد کی غائبانہ نماز جنازہ اداکی گئی - اور وہ سب جو 15 جولائی کودیکھا سنا تھا اس کا ایک حصہ خود کو محسوس کیا -امام صاحب سے مصافحہ ومعانقہ پُرخلوص اور ان کی حسین شخصیت کے عین مطابق تھا - یہ ایک بہترین سفرتھا اور مسجد جانا اور نماز ادا کرنا یادگار رہا - اور یوں جو ہمیں استنبول جاکر صرف ائیرپورٹ سے دوسری پرواز کے انتظار میں شہر نہ دیکھنے خاص طورپر عثمانی طرزِ تعمیر ، نیلی مسجد اور دیگر عمارات کو دیکھنے نہ پانے کی کچھ تلافی ہوئی-