ہفتہ، 4 جولائی، 2015

پہلا روزہ

13 تبصرے

ہمارے بچپن کے دور میں بچے بڑوں کے ساتھ اپنے شوق سے نمازپڑھنے چلے جاتے تھے ، تروایح مکمل نہ بھی پڑھیں لیکن مسجد باقاعدہ جاتے پوراماہِ رمضان - موضوعات اس ماہ میں کھانے پینے کی اشیاء نہیں بلکہ اپنے دوستوں میں روزوں کی تعداد ہوا کرتی-روزہ رکھنا ایک عزاز سمجھا جاتا اور دوستوں اور محلے میں معتبر ہوجانے کی علامت اس کو شمار کیا جاتا لہذا روزے رکھنے کا شوق نہایت کم عمری سے  پروان چڑھتا اوربڑھتاگھرمیں بڑے بہن بھائیوں کو دیکھ کر بھی اس صف میں شامل ہونے کی کوشش ہوتی- افطار میں ایک غیرمعمولی کشش محسوس ہوتی اور ماہ رمضان رونقوں کا مہینہ ہوتا ہرجانب خوب چہل پہل ہوتی -مجھے اپنے پہلے روزے کے نام پرفقط ایک فوٹوگراف یادہے جو اس موقع پہ قریبی اسٹوڈیو سے بنوائی گئی تھی جس میں میرے ساتھ میرا چھوٹاسابھائی ہے- مجھےاس تحریرکے لیے محمداسد کے حکم پرلکھنے کو کچھ یاد نہیں تھا اپنے پہلے روزےکے حوالے سے کچھ بچپن کے رمضان یاد تھے لیکن پہلا روزہ نہیں کچھ واقعات خودسے وابستہ والدہ سے کئی بارسنے جن میں ایک یہ ہے کہ جب مجھ سے کوئی پوچھتا کہ "روزہ رکھاہے" تو میں جواب دیتا"جی رکھا ہے ڈبے میں شام کو کھولوں گا" - سحری کے وقت کبھی بیدار نہیں ہواتھا لہذا صرف افطار دیکھا تھا اور روزہ رکھنا کھانے کی اشیاء کو ڈبے میں رکھ کرشام کو کھولنا سمجھتاتھا - پھر وقت کے ساتھ یہ تو سمجھ آگئی کہ روزہ ڈبے میں نہیں رکھا جاتا تو اصرارشروع کہ روزہ رکھنا ہے اس کی وجہ بیان کرچکا ہوں - مجھے آج اپنی بڑی بہن سے اپنے پہلے روزے کا پوچھنا پڑا تفصیل سے اس تحریرکے لیے - پہلا روزہ سات سال کیعمرمیں جمعۃ المبارک کا رکھا چونکہ مجھ بھوک برداشت کرنے کی اضافی صلاحیت ہے لہذا والدہ کو اس کا یقین تھا کہ روزہ توڑوں گا نہیں اور بھوک کے باعث کھانے کا تقاضا بھی نہیں کروں گا - سحری پہلی باردیکھی تھی لہذا رات کے اس پہر جو کھلایا کھالیا جو ہدایات دی گئی ان پہ سرہلادیا-دن بھر میری والدہ کو صرف ایک خطرہ لاحق تھا مجھ سے وہ تھا ٹافیاں کھانے کا چسکہ جو ہم ایک ساتھ تین چار منہ میں ڈال لیتے تھے اور میری والدہ اس حرکت سے انتہائی عاجزتھیں لہذا بڑے بہن بھائیوں کو ہمیں  سارادن بہلانے اور ٹافیوں سے دوررکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی- شام کو ہماری فرمائش پہ روایتی لباس کی بجائے والد صاحب کا ولایت سے بھیجا بدیسی لباس پہنایا گیا ہماری خواہش تو چھوٹے بھائی والی نیکربنیان پہننے کی تھی لیکن یاد دلاگیا کہ آپ کی روزہ کشائی ہے لہذا کچھ تو خیال رکھاجائے سمیت شرم وحیا یوں بھی نیکرکا سائز دیکھ کرہم نے اسے چھوٹے بھائی کے لیے ہی مناسب جانا- سُرمہ دُنبالے دار لگایاگیا خُوب جماکے بال سنوارے گئے تو ہم نے ٹوپی پہننے سے بھی انکار کردیا - ہار پھول پہنا کے چھوٹے ماموں کے ساتھ فوٹواسٹوڈیو یادگاری تصویربنوانے چھوٹے بھائی کو بھی ایک ہارپہنا کے ساتھ روانہ کیا گیا- مہمان نہیں بُلوائے گئے کیونکہ افطار پارٹی کا رواج نہیں تھا - افطار سے قبل مٹھائی اور سامان افطار محلے کے گھروں میں ہم اپنے بڑے بہن بھائیوں کے ہمراہ بانٹنے گئے اور کچھ نقد رقم وصول کی انعام کے طورپرمحلے کے گھروں سے -افطار میں ٹافیاں ہمارے اصرارکے باوجود نہیں رکھی گئیں لیکن مٹھائی خاص طورپرہماری پسندکی منگوائی گئی جو کہ اس افطار کا اہتمام تھی - اس کے بعد روزے معمول کے مطابق  رکھنے شروع کردیے اسی سال سے - جب تک میری والدہ حیات رہیں ماہِ رمضان میں میری کم ہوتی خوارک کے باعث جو اب تک ویسے ہی ہے انھیں یہ  فکرلاحق ہوجاتی یہ لڑکا نہیں بچے گا ہرروز ٹٹول کردیکھاکرتی - بچپن ماؤں کے ساتھ ہوتاہے لیکن جن کی مائیں  دنیا سے رُخصت ہوجاتی ہیں وہ اُسی روز بوڑھے ہوجاتے ہیں  چاہیے وہ عمرکے  کسی بھی حصے  میں ہوں کیونکہ پھرکوئی اُن کے بچپن کے واقعات نہیں دہراتا -
یہ گھمن صاحب کا شروع کیا سلسلہ ہے جس میں محمداسداسلم نے مجھے شامل ہونے کو کہا میں اس فرمائشی پروگرام کو مزید آگے بڑھاتاہوں ہوں اور 
فلک شیر
نیرنگ خیال
ابوشامل
حسان خان
سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے پہلے روزے کا احوال تحریرکریں

13 تبصرے:

  • 4 جولائی، 2015 کو 10:15 PM

    بہت خوب مطلب یہ شہروں میں روزہ کشائی کی روایت عام ہے
    چلیں ہم "پینڈو" لوگوں نے روزہ کشائی کے بغیر بھی روزے "کشا" کر لئے

  • 4 جولائی، 2015 کو 10:45 PM

    پہلے روزے کی یاد نے تو بہت اچھے لکھنے والوں سے روشناس کرا دیا۔ آپ کے لفظ بولتے ہیں۔ رسمی تعریف مجھے آتی نہیں اور نہ ہی پسند ہے۔
    Muhammad Aslam Faheem کی ممنون ہوں کہ ان کے توسط سے آپ کو پڑھنے کا موقع ملا۔

  • 4 جولائی، 2015 کو 11:20 PM

    بہت عمدہ ،
    لکھتے رہیں ، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

  • 5 جولائی، 2015 کو 12:10 AM

    بہت خوب ! بہت اچھا لکھا ۔ پڑھ کر اپنے ماضی میں بھی جھانکنے کی کوشش کی کہ پہلا روزہ کیسے رکھا تھا ۔ مگر ماضی سے زیادہ حال کی بھول بھیلیاں راہ میں آگئیں ۔ اور ماضی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔
    بہت اچھا لکھا ۔اُمید ہے مذید تحریریں بھی پڑھنے کو ملتیں رہا کریں گی ۔
    خوش رہیں ۔ ظفری

  • 5 جولائی، 2015 کو 3:11 AM

    بھائی صاحب آپ خوش خیال تو تھے ہی، خوش کلام و نگار بھی ثابت ہو رہے ہیں۔
    مجھے پہلا روزہ تو یاد نہیں، مگر وہ جمعتہ الواداع یاد ہے جس سال میں نے پہلی دفعہ پورے روزے رکھے تھے۔ وہ بھی اس لیئے کہ تنگدستی کے باوجود امّی جی نے نہ جانے کہاں سے میرے لیئےایک نئے ململ کے کُرتے کا انتظام کیا۔ جب میں نے کہا کہ کیا ضروت تھی تو اپنے بوسیدہ پّلو سے میرا چہرہ صاف کر کے کہنے لگیں " میرا بیٹا سارے روزے رکھے اور پھر نئے کپڑے نہ پہنے؟"۔
    آج ۳۱۔۳۲ سال ہو گئے، کتنے روزے گذرے، سب بھول گئے، پر نہ اُس بوسیدہ پّلو کا لمس بھولا اور نہ اُن شفیق آنکھوں کی چمک۔

  • 5 جولائی، 2015 کو 6:38 AM

    درست کہا بچپن بس ماؤں کے ہوتے ہی ہوتا ہے

  • 5 جولائی، 2015 کو 6:58 AM

    ماشاء اللہ تبارک اللہ۔ آپ اچھے لکھاری ہیں۔

  • 5 جولائی، 2015 کو 8:15 AM
  • 5 جولائی، 2015 کو 9:57 AM

    درخواست کو خاطر میں لانے کا شکریہ زبیر بھائی۔ آپ نے حق ادا کردیا۔ اب بھی دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ بھوک برداشت کرنے کے قابل ہیں اور آج بھی ٹافیوں سے آپ کا پیٹ بھر جاتا ہے :D اللہ آپ کو صحت مند رکھے۔ آمین

  • 5 جولائی، 2015 کو 4:21 PM

    عمدہ تحریر یوں آپ تمام اردو بلاگرز میں واحد بلاگرز ہیں جن کا پہلے روزے پر فوٹو شاٹ ہوا تھا.

  • 6 جولائی، 2015 کو 9:14 AM

    مرزا بھائی کیسی سادہ اور اعلیٰ تحریر ہے۔ ماشاءاللہ۔ اور اب آپ نے ساتھ ہی مجھ سے بھی فرمائش داغ دی ہے۔ میں ان پڑھ بھلا کیا لکھ پاؤں گا۔

  • 9 جولائی، 2015 کو 4:23 AM
    گمنام :

    زبیر بھائی، میں اپنے پہلے روزے کی روداد بھول چکا ہوں۔ :)

  • 14 جولائی، 2015 کو 10:38 PM
    گمنام :

    بہت خوب ۔۔۔۔تصویر موجود بھی تھی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بروقت مل بھی گئی
    اللہ سب ماؤں پہ اپنا رحم کرے اور دل تھوڑا نہ کریں ۔۔۔ مائیں اب بھی مل سکتی ہیں ۔۔۔ دوبارہ ۔۔۔ اپنی اولاد کی ماؤں میں مامتا کو سراہیں ۔۔۔ یاد رہے اب زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے اور اس دور کی ماؤں کو الگ طرح کے مسائل درپیش ہیں۔
    خوبصورت تحریر
    سدا خوش رہیں

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔