ان دنوں شہد سے عشق سا ہوا ہے - اس کی افادیت قرآن کریم میں اس کا ذکرحضوراکرم صلٰی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا اسے پسند فرمانا مدنظررہتا ہے - شہد کے ساتھ شہد کی مکھیاں بھی یاد آئیں اور ان کے متعلق بانوقدسیہ کی کہانی موم کی گلیاں-
شروع بہار کے دن تھے - سردیوں کی خُنکی اورٹھنڈ اب بھی صبح شام رینگتی ہوئی کمروں میں آجاتی تھی-آتشدان روشن کرنا پڑتا اورگرم کپڑوں کا سہارالیا جاتا- پہاڑوں میں بہار کچھ اور ہی رنگ لاتی - فضا میں ننھا ننھا بور، نامعلوم سی خُوشبوئیں اور ہریالی کی بُوباس اُڑتی رہتی - بہار پہاڑوں پر بھرپُورزندگی کا پیام لے کرآتی ہے-برف کی سلیں پگھتی ہیں
چشمے پُھوٹتے ہیں ، سردیوں کے سوئے جانوراپنی طویل نیند سے جاگتے ہیں تو خوابیدہ وادیاں جاگ اُٹھتی ہیں -مجھے پہاڑوں کی بہار سے اس لیے بھی زیادہ محبت ہے کہ یہاں انسانوں سے زیادہ جانوروں پہ بہارآتی ہے-اور زندگی کی گہماگہمی میں اضافہ ہوجاتاہے-
صبح میری آنکھ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کُھلی فضا میں خیروبرکت اور سکون وراحت کا ایسا شیرگرم پیالہ تھا کہ اترائی میں کُھلنے والی کھڑکی کھول کرکھڑا ہوگیا-صبح کی ہلکی دھوپ اخروٹ کے پتوں میں رینگ رہی تھی- اچانک میری نظرسامنے شہد کے چھتےپرپڑی-اگرمجھے شہد کی مکھیوں کا کچھ تجربہ نہ ہوتا توشاید میں پٹاخ سے کھڑکیاں بھیڑلیتا- لیکن آج میرے سامنے قدرت کی ایک مخلوق تھی جوصبح شام محنت کرتی ہے اورایسی منظم زندگی بسرکرتی ہے جہاں سوشلسٹ ، کمیونسٹ یا جمہوریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- یہاں کی ڈکٹیٹر ملکہ قدم قدم پرفرمان جاری کرتی ہے- لمحہ بہ لمحہ چھتے کی زندگی کو سنوارتی ہے - لیکن بڑے علم کے ساتھ ، نہایت انکساری کے ساتھ -اخروٹ کے پتوں میں ہولے ہولے بھنبھناتی تقریباَ ساٹھ ہزار کی آبادی محوِگردش تھی- کوئی سپاہی اس ٹریفک کے لیے مقررنہ تھا- پھربھی یہ جانیں اپنے اپنے کاموں میں بلا کی سرگرمی دکھا رہیںتھیں-سورج کی کرنیں تیکھی ہوچکیں تھیں اور اب چھتے کا رنگ قدرے سیاہی مائل نظرآرہا تھا اورگھومتی ہوئی مکھیوں کے پرچمکنے لگے تھے-
شروع بہار کے دن تھے - سردیوں کی خُنکی اورٹھنڈ اب بھی صبح شام رینگتی ہوئی کمروں میں آجاتی تھی-آتشدان روشن کرنا پڑتا اورگرم کپڑوں کا سہارالیا جاتا- پہاڑوں میں بہار کچھ اور ہی رنگ لاتی - فضا میں ننھا ننھا بور، نامعلوم سی خُوشبوئیں اور ہریالی کی بُوباس اُڑتی رہتی - بہار پہاڑوں پر بھرپُورزندگی کا پیام لے کرآتی ہے-برف کی سلیں پگھتی ہیں
چشمے پُھوٹتے ہیں ، سردیوں کے سوئے جانوراپنی طویل نیند سے جاگتے ہیں تو خوابیدہ وادیاں جاگ اُٹھتی ہیں -مجھے پہاڑوں کی بہار سے اس لیے بھی زیادہ محبت ہے کہ یہاں انسانوں سے زیادہ جانوروں پہ بہارآتی ہے-اور زندگی کی گہماگہمی میں اضافہ ہوجاتاہے-
صبح میری آنکھ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کُھلی فضا میں خیروبرکت اور سکون وراحت کا ایسا شیرگرم پیالہ تھا کہ اترائی میں کُھلنے والی کھڑکی کھول کرکھڑا ہوگیا-صبح کی ہلکی دھوپ اخروٹ کے پتوں میں رینگ رہی تھی- اچانک میری نظرسامنے شہد کے چھتےپرپڑی-اگرمجھے شہد کی مکھیوں کا کچھ تجربہ نہ ہوتا توشاید میں پٹاخ سے کھڑکیاں بھیڑلیتا- لیکن آج میرے سامنے قدرت کی ایک مخلوق تھی جوصبح شام محنت کرتی ہے اورایسی منظم زندگی بسرکرتی ہے جہاں سوشلسٹ ، کمیونسٹ یا جمہوریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- یہاں کی ڈکٹیٹر ملکہ قدم قدم پرفرمان جاری کرتی ہے- لمحہ بہ لمحہ چھتے کی زندگی کو سنوارتی ہے - لیکن بڑے علم کے ساتھ ، نہایت انکساری کے ساتھ -اخروٹ کے پتوں میں ہولے ہولے بھنبھناتی تقریباَ ساٹھ ہزار کی آبادی محوِگردش تھی- کوئی سپاہی اس ٹریفک کے لیے مقررنہ تھا- پھربھی یہ جانیں اپنے اپنے کاموں میں بلا کی سرگرمی دکھا رہیںتھیں-سورج کی کرنیں تیکھی ہوچکیں تھیں اور اب چھتے کا رنگ قدرے سیاہی مائل نظرآرہا تھا اورگھومتی ہوئی مکھیوں کے پرچمکنے لگے تھے-