منگل، 28 مارچ، 2017

موم کی گلیاں

0 تبصرے
ان دنوں شہد سے عشق سا ہوا ہے - اس کی افادیت قرآن کریم میں  اس کا ذکرحضوراکرم صلٰی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا اسے پسند فرمانا مدنظررہتا ہے - شہد کے ساتھ شہد کی مکھیاں بھی یاد آئیں اور ان کے متعلق بانوقدسیہ کی کہانی موم کی گلیاں- 
شروع بہار کے دن تھے - سردیوں کی خُنکی اورٹھنڈ اب بھی صبح شام رینگتی ہوئی  کمروں میں آجاتی تھی-آتشدان روشن کرنا پڑتا اورگرم کپڑوں کا سہارالیا جاتا- پہاڑوں میں بہار کچھ اور ہی رنگ لاتی - فضا میں ننھا ننھا بور، نامعلوم سی خُوشبوئیں اور ہریالی کی بُوباس اُڑتی رہتی - بہار پہاڑوں پر بھرپُورزندگی کا پیام لے کرآتی ہے-برف کی سلیں پگھتی ہیں 
چشمے پُھوٹتے ہیں ، سردیوں کے سوئے جانوراپنی طویل نیند سے جاگتے ہیں تو خوابیدہ وادیاں جاگ اُٹھتی ہیں -مجھے پہاڑوں کی بہار سے اس لیے بھی زیادہ محبت ہے کہ یہاں انسانوں سے زیادہ جانوروں پہ بہارآتی ہے-اور زندگی کی گہماگہمی میں اضافہ ہوجاتاہے-
صبح میری آنکھ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کُھلی فضا میں خیروبرکت اور سکون وراحت کا ایسا شیرگرم پیالہ تھا کہ اترائی میں کُھلنے والی کھڑکی کھول کرکھڑا ہوگیا-صبح کی ہلکی دھوپ اخروٹ کے پتوں میں رینگ رہی تھی- اچانک میری نظرسامنے شہد کے چھتےپرپڑی-اگرمجھے شہد کی مکھیوں کا کچھ تجربہ نہ ہوتا توشاید میں پٹاخ سے کھڑکیاں بھیڑلیتا- لیکن آج میرے سامنے قدرت کی ایک مخلوق تھی جوصبح شام محنت کرتی ہے اورایسی منظم زندگی بسرکرتی ہے جہاں سوشلسٹ ، کمیونسٹ یا جمہوریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- یہاں کی ڈکٹیٹر ملکہ قدم قدم پرفرمان جاری کرتی ہے- لمحہ بہ لمحہ چھتے کی زندگی کو سنوارتی ہے - لیکن بڑے علم کے ساتھ ، نہایت انکساری کے ساتھ -اخروٹ کے پتوں میں ہولے ہولے بھنبھناتی تقریباَ ساٹھ ہزار کی آبادی محوِگردش تھی- کوئی سپاہی اس ٹریفک کے لیے مقررنہ تھا- پھربھی یہ جانیں اپنے اپنے کاموں میں بلا کی سرگرمی دکھا رہیںتھیں-سورج کی کرنیں تیکھی ہوچکیں تھیں اور اب چھتے کا رنگ قدرے سیاہی مائل نظرآرہا تھا  اورگھومتی ہوئی مکھیوں کے پرچمکنے لگے تھے-

اتوار، 26 مارچ، 2017

میرا کراچی

0 تبصرے
سمندر کے کنارے بسا شہر جس کا ہرشخص سمندرسا جوش اورطاقت لیے نظرآتاہے محنتی اورجفا کش-  اس کا حُسن اس کے قدیم باشندے پارسی ، میمن ، کاٹھیاواڑی ، بوہری اور مچھیرے ہیں جن کے رنگ سے سانولا سلونا بانکا بنا- یہ پاکستان کا بڑا اور کماؤ پوت ہے ایک بڑے کنبے کو بسائے بیٹھا ہے آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا شہر  ذمے داریاں اُٹھائے ہوئے ہے - اس نے حق ادا کیے لیکن اس کو مانگنے کی تہمت سہنی پڑی تو کبھی لسانی تعصب کا الزام برداشت کرنا پڑا اس کے باسیوں نے اس کے وقار کو مجروح کیا لیکن سمندرسے سینے میں چُھپا گیا ، دُکھ کو پی گیا یہ عبدل الستار ایدھی ہے یہ حرف شکایت سے نا آشنا ہے - قائد اعظم محمد علی جناح کا مسکن ہے بڑائی تو دکھائے گا -
یہ چھیپا کا دسترخوان ہے کھلانے والا ، یہ فاطمہ ثریا بجیا کا پاندان ہے مہکتا ہوا، یہ کوئٹہ عنابی ہوٹل کی مہکتی چائے کی پیالی سا گرم جوش ہے - اس کو جون کی تپتی دھوپ میں دیکھو تو پسینے سے شرابورکڑیل جوان ہے - میمن مسجد کی فجر کی اذان ہے،  یہ دسمبر کی راتوں میں خُشک میوے لیے پختون بن کرٹھیلے کی گھنٹیاں بجاتا  ہے - یہ عبداللہ شاہ غازی کے مزارپہ سجا عقیدت کا پھول ہے- اس کی کئی ادائیں ہیں کئی روپ ہیں یہ تہذیب وتمدن سے آراستہ دلی اور لکھںؤ کا دبستان ہے -
میراکراچی جہاں آنکھ کھولی ، پہلا قدم اُٹھا ، جزدان لیے احتشام الحق تھانوی کی جامعہ مسجد پہنچا ،  بستہ گلے میں ڈالے قائد کے کے مزار کے منظر سے بسے اسکول کی راہ لی ، رنگوں کو سمیٹ کر اسکول آف آرٹس گیا ، گرم دوپہروں میں گھوما ، خُنک راتوں کو شہر میں دیرتک پھرتا رہا - یہ میرا کراچی ہے دنیا کا واحد شہر جسے میں اپنا کہہ سکتا ہوں جو میری راہ تکتا ہے ، میرے بھتیجے قاسم  کی طرح کہتا ہے "اچھا شام کو آجائیں" اب اسے کیسے بتایا جائے کہ  ہجرت کا موسم ابھی ختم نہیں ہوا -