جمعرات، 11 جون، 2015

بابا اشفاق احمد اور میں

10 تبصرے

کچھ مصنف ایسے ہوتے ہیں ان کی تحریر کو پہلی بار پڑھتے ہی   قاری کا ان سے قلبی رشتہ بن جاتا ہے - ایساہی قلبی رشتہ میرا بابا(اشفاق احمد) سےان کا افسانہ گڈریا پڑھتے ہی بن گیا جس وقت میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ان کے افسانوں کا مجموعہ اُجلے پھول مجھے اسکول کے رستے میں قائم کتابوں کی دوکان دانش کدہ جو کہ راشد منہاس روڈپرہے وہاں سے ملا چونکہ اُس عمرمیں ماہانہ جیب خرچ ملنے لگا تھا لہذا اُس میں یہ کتاب باآسانی خریدلیکیوں خریدی معلوم نہیں شاید اُس کے سرِورق پربنے سفید اور پیلے پھول اچھے لگے یا مصنف کا نام مانوس تھا ، یا ٹی وی کے طویل دوارنیے کے ڈراموں کے حوالے سے شاید بابا کا ایک ڈرامہ ننگے پاؤں کچھ کچھ سمجھ میں آیا تھا یا توتا کہانی کے کسی کھیل نے متاثرکیا تھا، ماما سیمی کے مکالمے ذہن میں تھےیا کچھ اور یقین سے نہیں کہہ سکتا - گھر میں نسیم حجازی اور ابن صفی کی کتابیں موجود تھی لیکن افسانوی ادب کی کوئی کتاب نہیں تھی - اُجلے پھول میں پہلی ہی کہانی گڈریا پڑھی اور باربار پڑھی اور کافی عرصے تک اُس میں سے کچھ اور نہیں پڑھا - اس کے بعدبابا کے ڈرامے دیکھنے کا شوق ہوا اس سے قبل جو ڈرامے دیکھے تھے بس یونہی دیکھے تھے اُس وقت کوئی چوائس نہیں تھی اور تمام گھروالے ٹی وی ڈرامے دیکھا کرتے تھے - بابا کے جملے بڑے بھاتے تھے اُن کے کردار خود سے ہم کلام ہوتے تھے - وقت کے ساتھ بابا کی ذات میرے لیے گھر والوں سی ہوگئی اُن کا لکھا مجھے اپنے ارگرد رچا بسا نظرآیا - وہ دور میری خاموشی ،  تنہائی اور اُداسی  کا دورتھا اسکول میں دوست نہیں تھے جو ہم جماعت تھے ان کی باتوں میں دلچسپی نہیں تھی لہذا بابا کی ایک بعد ایک کتاب پڑھتا گیا - میٹرک کے بعد بانو آپا کو پڑھا تو بابا سے قربت اور محبت مزید بڑھی اب ان کی کتابیں پڑھتا ان کے گھر جا نکلتا داستان سرائے کے کھلے دروازے سے ہوتا اندر جا پہنچتا یہاں ٹی وی دیکھتے اثیربھائی ( باباکے چھوٹےصاحبزادے) ملتے آگے انیس اور انیق بھائی گفتگو کرتے نظرآتے ان کے ساتھ ممتاز مفتی تکیے سے ٹیک لگائے نیم دارز ہوتے- بانوآپا کھانے کا اہتمام کرنے میں مصروف ہوتیں ، میں بابا کو کھوجتا ان کے کمرے میں جا نکلتا جہاں ہوئے مطالعے میں مصروف ہوتے میں گھر کے ایک فرد کی طرح بے تکلف وہاں ایک کرسی پہ بیٹھ کراُن کی کتاب پڑھتا- یہ اکثرہوا اب بھی یہی محسوس ہوتا ہے میں نے بابا کی ہرکتاب ان کی یا بانوآپا کی موجودگی کومحسوس کرکے پڑھی ہے -مجھے بابا کی کتابیں نجانے کہاں کہاں سے ملتی رہیں لیاقت آباد کے ایک بُک اسٹال سے 1995 میں اُن کی پنجابی نظموں کی کتاب مل جاتی جو کہ نایاب ہے -کراچی میں فرئیرہال کے کُتب بازار میں بابا کے جاری کردہ رسالے داستان گو کا جنوری 1960 کا ایڈیشن پُرانی کتابوں میں مل جاتاہے تو لاہورمیں سنگ میل کے دفتر سے توتاکہانی یہ کہہ کردی جاتی یہ ہمارے پاس آخری کاپی تھی اور ساتھ ہی سیون اَپ کی بوتل پلائی جاتی تو میں جان لیتا ہوں میرا رشتہ بابا سے خاص    ہے اور اسے سب محسوس کرلیتے ہیں ویسے ہی جیسے میرے والد نے 7ستمبر 2004 میںپاکستان سے فون کرکے بتایا تھا " اوجہڑا بابا سی نا اشفاق احمد او آج فوت ہوگیا اے" مجھے اطلاع میرے والد نے فون پہ یوں دی جیسے کسی عزیزکی وفات کی خبرہو ویسے ہی جیسے انھوں نے فون پرمیری والدہ کے انتقال کی خبردی تھی - میں اپنے والدین کے سفرآخرت کے مراحل میں شریک نہیں ہوسکا ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی وہ اُن کی تدفین کا مرحلہ نہیں دیکھا لہذا مجھے وہ ہمیشہ اسی دنیا میں محسو س ہوتے ہیں میں کبھی یہ نہیں محسوس کرتا اُن کا انتقال ہوگیا ہے- میں یہاں ہوں تو لگتا ہے وہ پاکستان میں ہیں اور وہاں جاکے محسوس ہوتے وہ امریکہ گئے ہیں - یہی احساسات میرے بابا کے لیے ہیں  ہمیشہ ایسا ہی لگتا ہے وہ اسی دنیا میں موجود ہیں -ان کی کتابیں پڑھوں تو وہ مسکراتے ہوئے ساتھ آبیٹھتے ہیں - دلچسپ بات یہ ہے اُن کی کتابیں میں اُردومیں پڑھتا ہوں لیکن وہ گفتگو مجھ سے پنجابی میں کرتے ہیں میرے والدین کی طرح - "کاہنوں جان کھپانا ایں نکیاں نکیاں گلاں توں اللہ خیرکرے دا"یہ کہہ کرمسکراتے ہوئے میرے پاس سے کوئی کتاب اُٹھا کردیکھنے لگتے ہیں - 

10 تبصرے:

  • 11 جون، 2015 کو 9:21 PM

    جذبات و احساسات میں گندھی ایک خوبصورت داستاں

  • 11 جون، 2015 کو 9:23 PM

    کچھ باتیں اپنی ہوتی ہیں۔ وہی کسی اور کے قلم سے لکھی جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی اپنا ہی تھا۔ ہماری داستاں چرا کر لے گیا ہے۔ اور اپنے نام سے چھاپ دی ہے۔ اس تحریر کے بارے میں بھی کچھ ایسے تاثرات ہیں۔ ایک ایک لفظ سے رشتہ لگتا ہے۔

  • 12 جون، 2015 کو 12:00 AM

    یک قاری کی کیفیت کو بہت خوبصورت سے بیان کیا آپ نے بھائی ۔۔ اور بابا صاحب کی یہی بات ان کے سب سے مختلف ہونے کا ثبوت ہے کہ ان کی کتب آپ سے باتیں کرتی ہیں ۔۔
    بہت خوبصورت شیئرنگ بھائی

  • 13 جون، 2015 کو 7:00 AM

    میں اس کو "ظالم تحریر" کہنا پسند کروں گا۔
    ویسے؛ یہ اہلِ قلم لوگ کچھ کیا بہت کٹھور واقع نہیں ہوئے کیا؟ ایک بات، ایک خیال جسے سوچ کر ایک عام آدمی کی سانسیں اتھل پتھل ہو جاتی ہیں اور آنکھوں میں دھند سی اتر آتی ہے، یہ قلم بردار اس کو لکھ جاتے اور وہ بھی ایسے کہ اس کی تاثیر میں کچھ بڑھتا ہی ہے!۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟

  • 13 جون، 2015 کو 7:22 AM

    شکریہ نین - یہ سب یونہی بے ساختہ لکھا ایک ہی نشت اور خیال کی رومیں پھر لکھنے کے بعد آنکھوں سے آنسوؤں کو ہتھیلی سےصاف کیا-

  • 13 جون، 2015 کو 7:23 AM
  • 14 جون، 2015 کو 7:24 AM
  • 9 جولائی، 2015 کو 6:48 AM
    گمنام :

    کتابوں کی یہ دکان ابھی بھی شارعِ راشد منہاس پر موجود ہے۔

  • 10 جولائی، 2015 کو 8:52 AM

    ((آئینہ وقت)) تعمیر انسانیت کا ذریعہ
    تحریر:اشفاق احمد
    کتاب ”آئینہ وقت“ کےمصنف کو میں عرصہ پچیس سال سےجانتا ہوں۔ اور اس کےساتھ وقت کی ہر بنت سےگذرا ہوں۔ جو دن ، دوپہر، شام ، رات، اور صبح کاذب اور صادق کےدرمیان نئےنئےچھاپےچھاپتی ہی۔ اور نئےنئےرنگ ابھارتی ہی۔ عنائیت کو میں نےاچھے، بری، تلخ، ترش،کھچاوٹ، کملاوٹ اور کرب و بلا کی کیفیتوں میں بھی دیکھا ہی۔ اس پر بوجھ بھی ڈالا ہی۔ اور اس کا بوجھ کبھی اٹھایا بھی ہےلیکن !
    عنائیت اللہ کےموجودہ روپ کا اشارہ مجھےماضی میں کبھی نہیں ملا تھا ۔ میرےوہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ کہ ایک روز جب گولڑہ موڑ پر پہنچےگا۔ تو اس پر ”آئینہ وقت“ جیسی کتاب وارد ہو جائےگی۔
    یوں تو مغربی طرز جمہوریت پر حضرت علامہ نےبھی بڑی شدید تنقید کی ہی۔ اور ملت اسلامیہ کی بڑی بڑی اور معتبر دینی جماعتوں نےبھی اس کےمنفی اثرات و آثار سےمسلمانان عالم کو آگاہ کیا ہی۔ لیکن جس سادگی ، صفائی، خلوص، اور دردمندی کےساتھ عنائیت اللہ نےاس بلائےبیدرماں کاتجزیہ کیا ہی۔ وہ ایک معمولی فہم و فراست رکھنےوالےذہن میں بھی بہ آسانی آ جاتا ہی۔ اس کی مزید وضاحت کےلئےآخر کےاکیس سوالوں میں ڈائیرکٹ ایکشن کی روح کارفرما ہی۔ یہ سوالات نہیں ہیں۔ ہماری معاشرتی ، ملی، سیاسی، دینی اور اقتصادی زندگی کےانڈیکیٹر ہیں۔
    جس طرح انسانی تاریخ میں بعض ایسےصحت مند موڑ موجود ہیں۔ جنہیں معمولی لوگوں ، معمولی کتابچوں، اور معمولی عملوں نےآنےوالی نسلوں کےلئےمستقل کر دیا ہی۔ اسی طرح مجھےلگتا ہی۔ کہ عنائیت اللہ کا ”آئینہ وقت“ بھی تعمیر انسانیت کےکسی عظیم منصوبےکےلئےڈائنا مائیٹ بن کر طاغوت کی ازلی بربادی کا سامان بن جائےگا۔
    ((اشفاق احمد))
    ٣ جولائی ٩٩٩١ ئ

  • 10 جولائی، 2015 کو 8:52 AM

    ((آئینہ وقت)) تعمیر انسانیت کا ذریعہ
    تحریر:اشفاق احمد
    کتاب ”آئینہ وقت“ کےمصنف کو میں عرصہ پچیس سال سےجانتا ہوں۔ اور اس کےساتھ وقت کی ہر بنت سےگذرا ہوں۔ جو دن ، دوپہر، شام ، رات، اور صبح کاذب اور صادق کےدرمیان نئےنئےچھاپےچھاپتی ہی۔ اور نئےنئےرنگ ابھارتی ہی۔ عنائیت کو میں نےاچھے، بری، تلخ، ترش،کھچاوٹ، کملاوٹ اور کرب و بلا کی کیفیتوں میں بھی دیکھا ہی۔ اس پر بوجھ بھی ڈالا ہی۔ اور اس کا بوجھ کبھی اٹھایا بھی ہےلیکن !
    عنائیت اللہ کےموجودہ روپ کا اشارہ مجھےماضی میں کبھی نہیں ملا تھا ۔ میرےوہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ کہ ایک روز جب گولڑہ موڑ پر پہنچےگا۔ تو اس پر ”آئینہ وقت“ جیسی کتاب وارد ہو جائےگی۔
    یوں تو مغربی طرز جمہوریت پر حضرت علامہ نےبھی بڑی شدید تنقید کی ہی۔ اور ملت اسلامیہ کی بڑی بڑی اور معتبر دینی جماعتوں نےبھی اس کےمنفی اثرات و آثار سےمسلمانان عالم کو آگاہ کیا ہی۔ لیکن جس سادگی ، صفائی، خلوص، اور دردمندی کےساتھ عنائیت اللہ نےاس بلائےبیدرماں کاتجزیہ کیا ہی۔ وہ ایک معمولی فہم و فراست رکھنےوالےذہن میں بھی بہ آسانی آ جاتا ہی۔ اس کی مزید وضاحت کےلئےآخر کےاکیس سوالوں میں ڈائیرکٹ ایکشن کی روح کارفرما ہی۔ یہ سوالات نہیں ہیں۔ ہماری معاشرتی ، ملی، سیاسی، دینی اور اقتصادی زندگی کےانڈیکیٹر ہیں۔
    جس طرح انسانی تاریخ میں بعض ایسےصحت مند موڑ موجود ہیں۔ جنہیں معمولی لوگوں ، معمولی کتابچوں، اور معمولی عملوں نےآنےوالی نسلوں کےلئےمستقل کر دیا ہی۔ اسی طرح مجھےلگتا ہی۔ کہ عنائیت اللہ کا ”آئینہ وقت“ بھی تعمیر انسانیت کےکسی عظیم منصوبےکےلئےڈائنا مائیٹ بن کر طاغوت کی ازلی بربادی کا سامان بن جائےگا۔
    ((اشفاق احمد))
    ٣ جولائی ٩٩٩١ ئ

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔