بدھ، 30 مارچ، 2016

مذمت یوں نہیں ہوگی

1 تبصرے

ہم اس دور میں ہیں جہاں خبربریکنگ نیوزہوتی ہے ، تماشا ہوتی ہے ، تصویر اور فلم کی شکل میں ہوتی ہے - بُرائی  ، فحش بات ، گالم گلوچ ، تشدد کو دکھا کر پھیلا کر بلکہ دہرا دہرا کر اس کی مذمت کا نام دیا جارہاہے - امریکی نومسلم دانشور
شیخ حمزہ یوسف  کہتے ہیں "اُمت مسلمہ کو جب کوئی بُری بات معلوم ہوتی ہے ، کسی فتنے اور شرکا پتہ چلتا ہے تو اس کو پھیلانے میں جوش وخروش سے حصہ لیا جاتاہے یہ اندرکا شرہوتاہے جو دراصل مذمت کے نام پہ عام کیا جاتاہے"-
مجھے اس بات کو سمجھنے کے لیے سوشل میڈیا ، ٹی وی اور اپنا گریبان دیکھنا پڑا، اپنی اور اپنے دوستوں کی  فیس بُک کی ٹائم لائین  پہ نظرکرنی پڑی سب سامنے آگیا- 
کبھی قابل اعتراض اشتہار کو پایا مذمت کے نام پہ اور تو اب مولویوں کی گالیوں سے مزین وڈیو موجودہے - کبھی جنید جمشید کی زبان کی لغزش کو عام کرکے گستاخ گستاخ کہا ہے - بُرائی کو بدی کو جُزئیات کے ساتھ بیان کرکے تصویری شکل میں فلم کی صورت  دکھا دکھا کراس پہ برہمی ظاہرکی جارہی ہے -
سوشل میڈیا پہ حق گوئی کے نام پہ بیباک تبصرے اور شرمناک جملے صرف نوجوان نسل ہی نہیں پکی عمر کے جہاندیدہ بُڈھے بھی پیش کرتے ہیں - ہم انسانوں سے نہیں شرماتے فحش کلامی اوربُری بات کہتے ہوئے اس کو دُہراتے ہوئے تو اللہ سے کیا شرم کریں - منافقت نہیں کرتے یہ کہہ کر اس کی کو آرڑ بنا کر بدزبانی کرلیتے ہیں 
وہ لطیفے اور بہیودہ جملے سوشل میڈیا پہ لکھ دیتے ہیں جو کسی بھی محفل کے آداب اور اخلاق کے منافی ہوں - ابلاغ اورآزائ اظہار کے کا نام پہ ہم مغرب کی تلقید کرنا چاہتے ہیں جو کہ ان معاشروں کو بھی اخلاقی طورپہ نقصان دے رہے ہیں ان میں تو پھر قانون کا احترام ہے ، کچھ قواعد وضوابط ہیں ہم تو ان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اللہ کے قانون کو جانتے ہیں ، مانتے نہیں سمجھتے نہیں - نئی لہر جو چلی ہے اس  میں  اب  اخلاق واقدار کا زوال اب سماجی  مسئلہ ہے  کسی نوجوان کی سوچ ، مولوی کی زبان پہ اعتراض کیوں سند قبولیت تو ہم اسے عام کرکے بخش رہے ہیں وہ وہ بات شائع کررہے ہیں کہہ رہے ہیں جو کبھی قابل بیان نہیں تھی وہ اب ہماری روزمرہ تماش بینی ، خبررسانی اور سماجی زندگی کا حصہ بن رہی ہیں -  سوچنا ہوگا رُکنا ہوگا ورنہ یہ طوفان بدتمیزی سب کچھ بہا لے جائے گا اور نہ اخلاق وکرداراور نہ ایمان محفوظ رہے گا ہمیں دانستہ اور نادانستہ طورپہ بُرائی کو عام کرنے کا حصہ نہ بننے کا ارداہ کرنا ہوگا- اپنی زبان کی حفاظت کرنے ہوگی مذمت گالیاں دے کر یا سنواکر نہیں ہوسکتی اس کے بہت سے مناسب طریقے ہیں - 
آقاﷺ کا فرمان ہے

 "مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے اور نہ لعنت کرنے والا، نہ وہ فحش گو ہوتا ہے اور نہ زبان دراز"

(رواہ الترمذي: ۱۹۷۷، والبھقي في شعب الاإیمان: ۵۱۵۰، ۵۱۴۹)

دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور شر سے محفوظ فرمائے -