جمعہ، 29 مئی، 2015

ہماری توجہ کے طالب پھول

4 تبصرے

تھیلسمیا خون کی کمی کی مورثی بیماری ہے - اس کی وداقسام ہیں تھیلسمیا مائینر اور تھیلسمیا میجر - اول الذکرمیں خون کے سرخ سیل کچھ کم ہوتے ہیں لیکن تھیلسمیا میجرمیں یہ انتہائی کم ہوتے ہیں اور اور مستقل کم ہوتے جاتے ہیں ان کو خون لگوانا پڑتا ہے جس پر ان کی زندگی کا انحصار ہوتاہے -اگر ماں اور باپ دونوں تھیلسمیا مائینر ہیں تو بچوں میں تھیلسمیا میجرکے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں -تھیلسمیا‮ ‬مائینر‮ ‬کے‮ ‬لئے‮ ‬کسی‮ ‬علاج‮ ‬کی ضرورت‮ نہیں‮ ‬ہوتی،جب‮ ‬کہ‮ تھلسمیا‮ ‬میجر‮‬ بچوں کو‮ ‬ہرماہ‮ ‬خون‮ ‬بدلوانے‮ ‬کی‮ ‬ضرورت‮ ‬ہوتی‮ ‬۔‮ ‬جسکی‮ ‬وجہ‮ ‬سے‮ ‬خون میں  فولاد‮ کی‮ ‬مقدار‮ بڑھ‮ ‬جاتی‮ ‬ہے  ‬اس‮ ‬سے‮ ‬جگر‮ ‬کو
نقصان‬ ‬ہونے‮ ‬کا‮ ‬خطرہ‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے۔‮ ‬خون‮ میں فولاد  کی زیادتی  کے ‬نقصان‮ ‬کو‮ ‬دور‮ ‬کرنے‮ ‬کے‮ ‬لئے‮ ‬دوائیاں‮ ‬دی‮ ‬جاتی‮ ‬ہیں ‬جس‮ ‬سے‮ ‬آئرن‮ ‬کی‮ ‬زیادتی‮ ‬میں‮ ‬کمی‮واقع‮ ‬ہو‮ ‬جاتی‮ ‬ہے-پاکستان میں 
ایک لاکھ سے زائد بچے اس بیماری میں مبتلا ہیںاور اس میں چھ ہزار  افراد   سال کی رفتار  سے اضافہ ہورہاہے-
 یہ تو تھی اس بیماری کی بنیادی معلومات جس کے بارے ہم میں سے اکثروبیشر احباب جانتے اور سنتے ، پڑھتے رہتے ہیں لیکن ہم اس کے روک تھام ،آگہی کا کام تو ایک طرف بنیادی انسانی فرض بھی ادا نہیں کرتے جو کہ خون کا عطیہ دے کیا جاسکتا ہے-طبی ماہرین کا کہناہے کہ ہمیں چاہئے کہ سال میںکم از کم دو سے تین بار خون کا عطیہ دیں تو صحت پر اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے-خون کا عطیہ دینے والے افراد صحت مند رہتے ہیں  دنیا بھر میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف تقریبا3سے4فیصد ایسے افراد ہیں جوکہ
 رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں جبکہ دیگر افراد کسی حادثات یا دیگر صورتوں میں خون عطیہ کرتے ہیں​-ہر وہ شخص جس کی عمر 18سے 50سالاور وزن تقریبا50کلو ہو وہ خون کا عطیہ دے سکتاہے​-اس کے علاوہ مالی تعاون سے ان بچوں کو ادویات اورخون کی فراہمی ممکن ہوسکتی -
ایک بچے کا اس بیماری میں ہرماہ خرچ دس ہزارروپے کے قریب ہوتا ہے جو غریب والدین تو ایک طرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنےوالے افراد کے لیےبھی انتہائی مشکل ہوتاہے - ہمارے ہاں اس بیماری کا مفت علاج کرنے والے ادارے فنڈز کی کمی کا شکار رہتے ہیں جس کے باعث اکثرغریب بچوں کو مکمل علاج کی سہولت میسر نہیں ہوپاتیں اور ان بچوں کی موت واقع ہوجاتی ہے-بچوں کی تکلیف کے ساتھ اُن کے والدین کی اذیت کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے-
ہمارے گھر میں جب کوئی بچہ معمولی سا بیمار ہوجاتاہے توہم اس سے زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس کا علاج فوری کرواتے ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہمیں استطاعت عطافرمائی ہے - لیکن جب ہمارے دفتر یا گھریلو ملازم اپنے بچے کی بیماری کا بتاتے ہیں تو ہم توجہ نہیں دیتے اورمدد اور ہمدردی تو ایک طرف  اکثر اسے بہانے بازی سمجھ لیتے ہیں - بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں اور ان کیتکلیف ہر ایک کو محسوس کرنی چاہیے یہی انسانیت کا تقاضا ہے - اکثر ہم میں جذبہ بھی ہوتا ہے اور ہم  اس  کےتحت کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن اپنی مصروفیاتمیں  بھول جاتے ہیں - تھیلسمیا میں مبتلا بچے موت سے ہرلمحہ جنگ کرتے ہیں اور ہماری توجہ کے طالب رہتے ہیں ہمیں ان ننھے پھولوں کو مایوس نہیں کرناچاہیے جن کے نازک بازؤں میں سوئیاں پوست ہوتی ہیں اور تکلیف سے دوچارہوتے ساتھ ہی ان کے نادار والدین جو در در دھکے کھاتے ہیں تاکہ اُن کی اولاد کی زندگی بچ جائے وہ  ہماری مدد کے منتظرہیں اور ہم اُن کی جانب متوجہ ہی نہیں کے ہمارے معمولی  مسائل اورتفریحات سے ہمیںفرصت ہی نہیں ملتی - تھلیسمیا کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریا  ں بہت ہیں  اس سے متعلق آگاہی کو عام کیا جائے اور ان افراد کی مدد کی جائے جو اس میںمبتلا ہوچکے ہیں اور شدید مالی مسائل اورمشکلات کا سامنا بھی کررہے ہیں- آئیے  دامے درمے سخنے ان پھولوں کو مرجھانے سے بچائیں-

4 تبصرے:

  • 29 مئی، 2015 کو 9:52 PM

    پنجاب حکومت نے صوبے بھر کے مختلف ہسپتالوں میں تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام کے تحت سکریننگ ٹیسٹ کے سینٹر بنائے ہیں۔جہاں پر تھیلیسیمیا کا سکرینینگ ٹیسٹ ہوتا ہے،لاہور میں یہ سینٹر سر گنگا رام ہسپتال میں ہے۔شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ انتہائی مفید ہے
    http://ptpp.pk/

  • 30 مئی، 2015 کو 8:20 AM

    شکریہ حسیب اب اس بیماری کے حوالے سے حکومتی سطح پرکام کا آغاز ہوا ہے جو کے خوش آئند ہے- ہمارے ہاں مجموعی طورپربچوں کی صحت کے حوالے سے سرکاری اور نجی طورپربہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے - میں اپنے ایک عزیز بچوں کے ماہرطب سے بات کررہا تھا تو انھوں نےبتا یا اسہال کی بیماری سے پاکستان میں سب سے زیادہ بچے جاں بحق ہوتے ہیں جس کا علاج بھی سستاہے اور معمولی توجہ سے اس پرقابو پایا جاسکتاہے-

  • 31 مئی، 2015 کو 8:28 PM

    اسہال کی بیماری والی بات میرے لیے ایک نئی بات ہے۔واقعی ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اگر کام کیا جائے تو ہم بڑی بڑی مشکلات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

  • 15 اپریل، 2016 کو 4:45 AM

    کراچی میں عمیر ثنا فائونڈیشن تھیلے سیمیا پری وینشن پر کام کر رہی ہے اور پاکستان میں سب سے پہلے تھیلے سیمیا پری وینشن سینٹر قائم کیا

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔