ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

میرے ساتھ سوئے حرم چلو

5 تبصرے

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا -(احزاب - الآية 43)

(وہی تو ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔ تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے۔ اور خدا مومنوں پر مہربان ہے)
سب کام اُس کی رضا سے ہوتے ہیں وہی خیال کو دل میں لاتااورخواہش بناتاہے اورپھرحرفِ دعاکی صورت لبوں سے اداہونے پرقبولیت کی سندبھی عطا فرماتاہے - مجھے الفاظ میں کیفیت کو بیان کرنا ہے اُس کفیت کو جو مجھ پہ اب تک طاری ہے اوراحباب کی فرمائش پراسے لکھنا ہے اور اس سے بڑھ کر مجھے اس تحریرکو اللہ تعالٰی کے شکرکےلیے ایک چھوٹی سے کوشش کی صورت پیش کرنا اور اُس کے اُن بندوں کاشکریہ اداکرنا ہے جنھوں سے اس عظیم سفرکومیرے لیے اللہ کے حکم سے آسان بنایا اور وسیلہ بنے کاروانِ حراگولڈن ٹریول  کے منوراحمدصاحب ، عمران سرور ، اویس احمد اورمحمداحسان شیخ اور دیگراحباب نے ہمیں ہر شکایت اور تکلیف سے بچائے رکھا اور یکسو ہوکر اس فرض کی بجاآواری کو سہل بنایا- میری خواہش عمرہ کرنے کی تھی لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے التواء کا شکارہوتی رہی لیکن جب نیت حج بیت اللہ کی ہوئی تو آسانیاں اللہ تعالٰی نے یوں عطافرمائیں  کہ یقین مشکل ہوگا لگا ایک خواب ہے- مجھ پر وہ مہربان ہے اتنا مہربان اس کا اندازہ ہونے لگا - جب میں یہ سنتاتھا کہ حج کا بُلواآتاہے تو سوچتا تھا اللہ کے مقرب بڑے متقی لوگوں کو اللہ یہ سعادت نصیب فرماتاہوگا اُن کو جن کے اعمال مقبول ہوں گے جو کسی طورپرتو اُس کے مقرب ہوتے ہوں گے ، مجھے ان میں اپنا آپ نظرنہیں آتا- پھرخیال آیا وہاں جیب کترے بھی تو بُلائے جاتے ہیں  ، گناہ گاروں کو وہ وہاں بُلاکرموقع دیتاہے توبہ کا ، استغفارکا اور اپنی راہ پہ چلنے کا سنبھلنے کا - مجھے اپنی گناہوں کی گٹھری کو سرپہ رکھ کے ، ندامت کے ساتھ یہ سفرکرنا تھا اور میں نے کیا - مجھے مدینہ منورہ میں اپنے غلیظ وجود کو اُن کے قدموں میں رکھنا تھا جن کے اللہ تعالٰی نے فرمایا
( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ)
مجھے اُن کی سفارش درکارتھی میں سیاہ رو اللہ کے سامنے کیسے جاتا ,میرے لیے رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ کے شہرکا سفروہاں کی حاضری پہلے منظورہوئی  میں محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ آولہٰ وسلم کے شہرمیں تھا اس شہرکی فضا اتنی معطرہے اس قدر سکون آوار ہے گرم ہوابھی یہاں کی جسم کوراحت بخشتی ہے - یہاں آکراحساس ہوا ہم پہ اللہ کا کتنا کرم ہے کہ اُس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا - اپنے حبیب محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ آولہٰ وسلم کا اُمتی ہونے کا شرف عطاکیا-مدینہ منورہ میں پہلی حاضری تھی ہوٹل میں سامان رکھا تو مسجدنبوی سے عصرکی اذان کی صدائیں آرہی تھی بُلاوا فلاح کا پہلی بار اس صدا پر دل نے لبیک کہا ، میں مسجد کا راستہ نہیں جانتاتھا کسی سے پوچھ  کراُس جانب چلا تو ایک ہجوم تھا انسانوں کا جواُس طرف رواں تھا یہ میرے مسلمان بھائی تھے ان سے ایک ہی پل میں رشتہ بن گیا ، ازبک ، عرب ، مصری ، سوڈانی ، ترک ، ایرانی سارے اپنے حقیقی بھائی لگے یہ کرم کی پہلی بوندتھی -میں نے نماز مسجد کے صحن میں ادا کی اندرجانے کا حوصلہ ناپاسکا ، مغرب اور پھرعشاء وہی اداکیں- میں مسجد میں جاتاتو روضہ اقدس کے جانب جانے کی ہمت نہ پاتا - وہاں قیام کے دن ختم ہونے کے قریب تھے ایک روز یوں لگا کوئی ہاتھ پکڑکے اُس جانب لے گیا- اس قدر محبت وعجز میں رچے میرے مسلمان بھائی چہرے پہ میٹھی مسکراہٹ سجائےاُمتی اُمتی اخلاق سے چھلکتے حبت اورسلامتی میں لپٹے ہرجانب تھے یہاں-
 اصحاب صفاء کے مقام پرمیں اپنے نبی صلٰی اللہ وآلٰہ وسلم کے قدمین شریفین کی جانب بیٹھ کر اپنی ندامتوں کا، محرومیوں کا، کوہتایوں کا رونا رویاتھا ،میں آپ صلٰی اللہ وآلٰہ وسلم کے روضے کے رُخ مبارک کی خواہش کی تو حیدرآبادسندھ کے ایک نوجوان نے مجھے وہاں تک پہنچادیا میں اکیلا بھلا وہاں کیسے جاتا ، جالیوں کے سامنے سلام پیش کیا -
 میں اپنے آقاصلٰی وآلٰہ وسلم کے حضورشرمسارتھا ، سراُٹھانے کی سکت نہیں تھی پھر دل سکون سے بھرنے لگا یہ میرے آقا محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ آولہٰ وسلم کا درباراقدس ہے جہاں سے کوئی خالی نہیں آتا وہ سخی ایسے ہیں کہ روح کو سیراب کردیتے سکون کوقرار سے دل کو مالامال کرتے ہیں - اس شہرنے مجھے رنج والم سے آزاد کیا مجھے قرارعطاکیا-مدینے کا مزاج دھیما ہے ، اس میں جنت کا ٹکڑاہے تو ہوائیں بھی جنت کی سی ہیں -
مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفرتھا ایسے میں مجھے وہ تمام باتیں یاد آئیں جوسنی تھیں جومجھے سفرِ حج سے قبل اس کی مشکلات کا کافی احباب نے بتایاتھا اور تکالیف کا ذکرکیا تھا - میں اللہ کے گھرکے جانب سرجھکائے چلا ابیار علی میقات تھا جہاں سے عمرے کے نوافل اورنیت کرنی تھی - دو سفید چادروں نے مجھ سے فیشن کونشس کواپنے وجود پہ ڈالتے ہی حیران  کردیا یہ احرام دنیا کا بہترین اور قیمتی لباس بن گیا یہ اللہ کا برینڈنیم لباس ہے اس سے بڑھ کرکون سا برینڈ ہوگا - احرام جسم کو ہی نہیں ڈھانپتا روح کو بھی ستردیتاہے ، چھپالیتاہے سارے عیب سارے گناہ یہ کفن سا لباس - مجھ پرلازم ہوا اس کی پاکیزگی کو قائم رکھنا تاعمر کہ یہ جسم سے اُترا بھی تو روح سے پیوست رہے گا ، دعاکی تھی مولا مجھے اس کی توفیق عطا فرمانا مجھے اس کو دغاوں سے بچائے رکھنا اور استقامت عطافرمانا یہ آپ کے کرم سے ہی ممکن ہوگا-
میں نے حج کی تیاری کتابوں ، دستاویزی فلموں اورپہلے اس فرض کی ادائیگی کرنے والے احباب سے ، پڑھ سن کرکی اور یہ تیاری صرف اور صرف اپنے ذہن کو صاف رکھنے اورجسم کوآرام سے دور رکھنے اور مشکلات کے لیے خود کوتیارکرنے کے علاوہ اپنے جذبات میں توازن اوراعتدال کی کوشش تھی - مجھے کسی روحانی تجربے اورروح پرورمنظرکی طلب نہیں تھی فقط اللہ کے حضوراس کے گناہ گاربندے کی صورت میں پیش ہوناتھا اس سے معافی طلب کرنے تھی -
مکہ مکرمہ میں رات گئے پہنچے سامان کمرے میں رکھ کر حرم شریف جانا پہلا عمرہ ، پہلی زیارت ، پہلی حاضری کسی گھبراہٹ کاشائبہ نہ تھا یہ کرم مجھ پر میرے آقا محمدمصطفٰی صلٰی اللہ علیہ وسلم کا حاصل تھا ورنہ اس سے قبل تو ایک گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ ہرنئی جگہ ، سفر ، مقام اور کام سے پہلے مجھے آگھیرتی تھی لیکن اب ایسا کچھ نہ تھا - سرجھکائے گروپ کے ایک ساتھی رشید صاحب کے پیچھے چلتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے ان کوکہاا جب خانہ کعبہ نظرآنے لگے تو بتایئے گا پھر کچھ دیرچلنے کے بعد ان کے کہے پہ سر اُٹھا کے دیکھا ----
یہ یہ یہ خانہ کعبہ ہے حیرت سے سوچا کچھ مایوسی ہوئی اس میں نہ تو کوئی کشش نہیں کوئی اپنائیت نہیں دل میں ملال آیا سیڑھیاں اُتر کر مطاف میں قدم رکھا طواف شروع کیا ، چکر دورسے شروع کیا لیکن یہ کیا ---- خانہ کعبہ ساتھ محسوس ایک ہاتھ بڑھاکے چھُولوں ---- قلب بدلتے ہیں جذبات یوں پلٹتے ہیں یہ اللہ کا گھراس قدر پُرکشش اوردل میں کسے آبسا چندلمحوں میں----- دوران طواف خانہ کعبہ کی جانب رُخ کرنا اور اسے دیکھنا منع ہے لیکن ------ میرا چہرہ اُدھر ہی گھوم جاتا اپنی بہن کے باربارکہنے پر کہ طواف کے دوان اُدھر چہرہ مت کرومیں با مشکل سامنے دیکھتا اور پھرچہرہ گھوم کے خانہ کعبہ کی جانب ہوجاتا- طواف ہمارے جسم نہیں کرتے یہ روح کا کام ہے وہ وجدمیں آکے چکرلگاتی ہے وہ جو امرالہی سے ہم پُھونکی گئی وہ صدقے اورقربان ہونے لگتی تو جسم کوساتھ لگالیتی ہے پھر جسم نہیں تھکتا ، بے آرامی ، رکاوٹ ، لوگوں کے رویئے اور دیگرباتیں وجودکھودیتی ہیں اب معاملہ رب کا اور روح کا ہے - طواف مکمل ہوا دونفل پڑھتے ہوئے نیت کی اور جب کہا منہ میراکعبہ شریف کی طرف تو نگاہیں اُٹھ گئیں اُس طرف وہ سامنے ہے آج تصورحقیقت میں موجودہے بچپن سے اب تک سیکھی نماز کی نیت اورادائیگی میں تصورہی کیا آج سامنے ہے روح اب پھروجدکرتی ہے نیت ہوگئی اب خانہ کعبہ کا یہ منظرمحفوظ کرلیا روح نے آنکھ میں تو آنکھ شکرانے میں نم توہونی ہی تھی - اب آب زم زم تھا معجزے کا پانی محبت کا ، قربانی کا ، اللہ کی رضا پہ راضی ہونے کا انعام جو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ماں حضرت ہاجرہ کا انعام ان کے طٖفیل ہمیں عطا ہورہاہے - سعی قربان قربان جائیں اللہ کے انعاموں کے سیدہ بی بیحضرت ہاجرہ  کا عمل رہتی دنیا تک دہرایاجائے گا - سعی کے دوران مخصوص مقام پہ دوڑنے کا حکم ہے اور یہ حکم صرف " مردوں کے لیے ہے " اب ماں کا عمل بیٹے دہرائیں"- سعی کا عمل پیروں سے نہیں سروں سے اداکیا جائے تو بھی کم ہے -
حج محبت ہی محبت ہے بھائی چارے کا عمل ایثارکا نام اللہ کے ساتھ رابطہ بڑھے تو اس کی مخلوق سے پیاربھی بڑھ جاتاہے اس کو وہاں عام دیکھا جاسکتاہے حرم شریف میں میرے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے نماز کا انتظارتھا نگاہیں کعبہ شریف کی جانب تھیں وہ صاحب پوچھنے لگے آپ پاکستان سے ہیں میں کہا جی بڑی شفیق مسکراہٹ سے کندھے سے لگا ابھی میں ان کے لہجے سے اندازہ لگانے کی کوشش ہی کررہاتھا کہ کہنے لگے میں " ایسٹ پاکستان سے ہوں" میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی اورآج تک ملنے والے کسی بنگالی سے یہ نہیں سنی تھی میرے چہرے پہ حیرت دیکھ کرمسکراکے کہنے لگے بنگلہ دیش نا ایسٹ پاکستان ہی توہے
اللہ اکبر خطبہ حجۃ الوداع میں آقاصلٰی اللہ علیہ آؒلہ وسلم کا فرمان تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی سامنے عملی صورت میں تھا - 
پاکستان میں رہتے ہوئے اوراب بیرون ملک قیام میں ہمیشہ میرے لیے پاکستان کے خلاف کسی کی کوئی بھی بات سننا برداشت سے باہررہاہے مجھے سن کے آگ لگ جاتی ہے مجھے لگتا کسی نے میرے منہ پہ طمانچہ ماردیا - مجھے حرم شریف میں اللہ نے پاکستان کی فکرسے آزاد کرنا تھا دیگر فکروں کی طرح وہ بڑے اسباب بناتا بڑے اہتمام ہیں اس کے کوئی کام حکمت سے خالی نہیں - طواف چونکہ میں اپنی بہن کے ہمراہ کرتا رہا اور رش اور اُن کی طعبیت کے باعث خانہ کعبہ کے بہت قریب نا جاسکا - ایک دن اُن کے ساتھ معمول کے طواف کے بعد میں اکیلا دوسرے طواف کے لیے پہنچا بلکہ پہنچایا گیا - طواف کے ساتھ چکرخانہ کعبہ سے قریب سے قریب تر ہوتے مکلمل کئے اور پھر خانہ خدا کی دیوار کے قریب ہوا اوراسے ہاتھ لگاکے اپنے سوئے نصیب جگائے یوں لگا کسی نے ہاتھ پکڑلیا ہو اندرسے ہاتھ دیوارکعبہ سے لوہے کا مقناطیس سے لگنا محسوس ہوا گرفت تھی کسی کی میرے ہاتھوں پر بیشک بیشک وہ مجھے سے گرے ہوئے گناہ گاروں کو بھی اپنالیتاہے تھام لیتاہے وہی سہاراہے - میں اشکبارمحودعاتھا سردیوار سے لگاکر ساری زندگی کے رونے رویا اپنے رب کے حضور - بڑی دیربعد اردگرد کی خبرہوئی اپنےساتھ ایک صاحب جن کا سرخانہ کعبہ کی دیوار سے لگا تھا ان کی آواز نے چونکایا ان کی دعائیں ساری التجائیں پاکستان کے لیے تھیں " اللہ پاکستان کی حفاظت فرما" اللہ پاکستان اوراللہ پاکستان ساری دعائیں انہی صداؤں میں تھیں مجھے اب بس آمین کہنا تھا باآواز بلنداللہ سے کہا وہی کردیں جو یہ کہہ رہا ہے - وہاں جہاں اپنے لیے دعائیں التجائیں ہوتی ہیں وہاں کوئی پاکستان کے لیے ہی گڑگڑارہا تھا رورہا تھا دل سکون واطمینان سے بھرگیا اللہ نے پاکستان کی سلامتی کا پیغام مجھ تک پہنچادیا اس شخص کی زبان سے اور فکر سے آزادکیا "ان شاءاللہ پاکستان سلامت رہے گا اوراس کا امن وسکون بحال ہوگا" سرگوشی دل نے کی 
اللہ اکبر- 
حج کے ایام سے قبل ہم علیحدہ کمروں میں مقیم تھے اپنے ساتھ گئے گروپ کے لوگوں سے زیادہ سامنا نہیں ہوتاتھا سب اپنی لگن میں خوداپنے آپ سے لاپرواہ بس 
رحمتوں میں بھیگ رہےتھے کون ہے کیسا ہے کسے اس کی ہوش تھی - سامنا ہوتا تو چندلمحوں کا اندازہ ہوتایہ شاید ہمارے گروپ میں ہیں سلام دعاہوتی سرراہ - پھر ہم عزیزیہ پہنچے منٰی کے قریب کی ایک رہائشی بستی میں یہاں چارمردوں اور چارخواتین کے علیحدہ کمرے تھے یعنی روم میٹ - میں اپنے کمرے میں پہلے پہنچا پھر نسیم کاکڑ، آصف بھائی اور اسحاق بھائی - میرےلیے یہ کمرے کی شراکت کا پہلا اور الحمدللہ بہترین تجربہ رہا - یہاں ادگراحباب سے بھی ملاقاتیں رہیں اورخوب رہیں - یہاں خوش اخلاق اورخوش لباس بوستان برادارن تھے ، ایک پیارادوست طٰہ  ملا ، نجم احمدصاحب کی صحبت نصیب ہوئی ، قاضی صاحب کا روشن چہرہ اورشاندارشخصیت سے قربت ملی ، ڈاکٹرمراد، باسط کھوسہ اور ان کے والد ، دادااوربھائی خلوص کے پیکرملے- ہرفرد "ایں ہمہ خانہ آفتاب است"
کی صورت نظرآیا - رشید صاحب ، افتخارصاحب اور ان کے عزیز جن کا نام تک میں نہیں جانتا اس قدر پیارسے ملتے رہے اوردل میں گھرکرگئے-
لبیک اللھم لبیک ،لبیک لاشریک لک لبیک 
ان الحمد والنعمة لک والملک لاشریک لک
آٹھ ذوالحجہ 
اب ہم نے حج کا احرام باندھا نیت کی نفل اداکئے اور منٰی روانہ ہوئے - یہاں کا ایک دن کا قیام  حدآرام دہ رہا پچاس کے قریب لوگ ایک خیمے میں تھے جگہ کم ضرورتھی لیکن تنگ نہیں دلوں میں جگہ والی بات یہاں صادق آئی تھی ہرایک دوسرے کے لیے جگہ بنانے میں پیش پیش تھا وہ منورصاحب ہوں ہمارے گروپ لیڈر یا عمران سرور - یہاں میں مفتی محمدنعیم صاحب کا ذکرکروں گا جوہمارے گروپ کے ہمراہ تھے مفتی صاحب کو اللہ تعالٰی جزائے خیردے قدم قدم پہ ہماری راہنمائی فرماتے رہے- عشاء کی نماز کے بعد ہم رات میں ہی رش سے بچنے کی خاطرعرفات روانہ ہوئے یہ -
نو ذوالحجہ 
 رات قیام کے بعد صبح ہوئی رحمتوں بھری صبح یوم حج کی صبح گناہوں سے معافی کادن ایک عظیم دن رحمتوں بھرا اللہ نے ہمیں عطافرمایا تھا - وقوف عرفہ زوال سے شروع ہوتاہے مغرب کی اذان تک جاری رہتاہے اللہ کے حضورگڑگڑانے کا وقت کی رحمتوں سے شرابورہونےکے لمحے دن گرم تھا بحد گرم  اور پیاس تھی منظرمیدان محشرساتھا ہرایک کو اپنے آپ کو بخشوانے اللہ کے آگے رونے کے سواءکسی چیز کی پرواہ نہ تھی گرمی تھی لیکن آج سورج کی تپش کو کون خاطرمیں لائے آج ہر سختی برداشت کرنا باعث رحمت تھا پھرکون گھبرائے-
 إنَّ اللهَ يُباهي بأهلِ عرفاتٍ أهلَ السَّماءِ ، فيقولُ لهم : انظروا إلى عبادي جاءوني شُعثًا غُبرًا  . صحيح ابن خزيمة   2839

بیشک اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اہل عرفہ کے تئیں فخریہ طور پر کہتا ہے : میرے بندوں کو دیکھو ! وہ کس طرح گردآلود و پراگندہ  بال ہوکر میرے لیے آئے  ہیں۔ 
 زندگی نثارکرنے والے دنوں میں ایک دن یوم عرفہ- آج یہاں مغرب تک قیام کرنا لیکن نماز اداکئے بغیرمزدلفہ روانہ ہوناتھا یہی اللہ کا حکم ہے - مزدلفہ کے قیام کی شب کنکریاں چننے اور عبادت کی شب -
دس ذوالحجہ 
فجرکی نماز اداکرکے منٰی جاناتھا شیطان کو کنکریا مارنی تھیں آج صرف جمرہ عقبی کوسات کنکریا مارنی دائیں ہاتھ میں کنکریاں اوربایاں ہاتھ سینے پہ مارکے اندر کےشیطان کو بھی للکارا- آج تجھے نہیں چھوڑنا مردود - کنکریاں مارنے کے بعد قربانی اورسرمنڈوانے کاعمل احرام کھولنا اور طواف زیارت - چونکہ ہماراقیام صرف بارہ ذوالحجہ تک تھا توہمیں طواف وداع بھی اسی روزکرناتھا-گیارہ اوربارہ کی رمی کے بعد بارہ ہی کو ہماری روانگی تھیٓ مجھے اس بات کا علم نہیں تھاکہ
ہم حج پہ جاتے ضرورہیں لیکن وآپس نہیں آتے ہیں وہیں کے ہوکےرہ جاتے ہیں
دل وہاں سے ایسا مانوس ہوتاہے کہ انھیں مقامات کا پہ فداہوتارہتاہے ساتھ نہیں آتا
حج میں مشکلات ہوتی ہیں  لیکن اس میں اس قدررحمتیں اوربرکتیں ہمارے دامن اوردلوں میں بھرتی جاتی ہیں کہ کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی روکاوٹیں حائل ہوں بھی توراہیں جلدکُھل جاتی ہیں -ہمارے لیے اس حج کے فریضے کو آسان بنانے میں ہمارے میزبان کاروان حراگولڈن ٹریول کا اہم کردار ہے - میں چونکہ پاکستان میں نہیں تھا اورحج کے پیکجز اورکمپنیوں کے بارے سنی ہوئی باتوں کے باعث میرے کچھ تحفظات اورخدشات تھے - کاروان حراکا ہمارے ایک عزیزنجم بھائی نے بتایاتھا اس کے باوجود میرے خدشات اوراندیشہ موجود تھے - مدینہ منورہ میں ائیرپورٹ پر منوراحمدصاحب جو گولڈن ٹریول کے سربراہ اورکاروان حراکے لیڈرہیں ان ملاقات ہوئی ، پھرعمران سرورسے اوردیگران کے عملے سے جن میں فیصل , محمداحسان شیخ اورمنورصاحب کے صاحبزادے اویس شامل ہیں - یہ ان کا بزنس ہے لیکن ----- مجھے کہنا پڑے گا یہ اسے حجاج کی خدمت کی طرح کرتے ہیں مدرات اورمیزبانی ، پُرخلوص مسکراہٹ سجائے ہرفرد خدمت میں پیش پیش نظرآیا ان لوگوں نے کسی شکایت ، کسی کمی ، روکاٹ اورپریشانی کا ہمیں سامنا کرنے نہیں دیا توقع سے بڑھ کرحسن انتظام تھا - عمران سرور گولڈن ٹریول کا گولڈن بوائے سونے سا دل رکھنے والا مہربان لڑکا تن من دھن سے سب کی خدمت کرتارہا میٹھا لہجہ اس کو ممتاز اورہردلعزیزبناتاہے - احسان شیخ دھان پان سے لنگرتقیسم کرتے ہوئے آپ کو گھرسا ماحول اورآرام فراہم کرنے پہ معمور- اویس انتظامات میں بھاگ دوڑ کرتا نظرآیا - منورصاحب مسکراہٹ سجائے میزبانی اورخدمت میں ہمارے لیے تسکین کا باعث بنے ساراوقت ہمارے ہمراہ رہے -
 ان احباب کی خدمات اورسروس روپے پیسے سی ناپی تولی نہیں جاسکتی یہ اس سے کہیں بڑھ کرہے - گولڈن ٹریول بلاشبہ فریضہ حج کو آرام دہ اوریادگاربناکے اجرپارہی ہے - اللہ تعالٰی ان تمام احباب کوخیرکثیرعطا فرمائے -




5 تبصرے:

  • 31 اکتوبر، 2015 کو 10:03 AM

    ماشاءاللہ جناب..
    بیشک اس کی رضا ہے جب وہ راضی کسی پر ہوتا ہے اور اپنے جلوے دیکھاتا ہے..
    حل من مذید

  • 8 نومبر، 2015 کو 6:07 AM

    اللہ اکبر
    پڑھ کر اور سُن کر کیفیت طاری ہو گئی ۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہیں کا اور ان کا بنا دے ۔
    جزاک اللہ خیر

  • 14 نومبر، 2015 کو 2:10 AM

    ما شاء اللہ بہت اثر انگیز انداز میں آپ نے سفرِ مبارک کا احوال بیان کیا ۔۔۔۔ ساتھ میں یادیں بھی تازہ ۔۔۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ سارے منظر پھر سے آنکھوں کے سامنے آگئے ۔۔۔۔ جزاک اللہ ۔۔۔ میرا خیال تھا کہ الفاظ کبھی کیفیت کو بیان نہیں کرسکتے مگر آپ کی تحریر پڑھ کر لگا کہ کرسکتے ہیں مگر اللہ یہ کمال بھی کسی کسی کو عطا کرتا ہے ۔۔۔

  • 28 نومبر، 2015 کو 8:00 PM

    میری کم علمی کہ قدرے تاخیر سےآج آپ کا سفرِ حج پہلی بار نظر سے گزرا اور دل میں گھر کر گیا کہ یہ کیفیت ہراہل ِدل محسوس تو کرتا ہے لیکن اس طور بیان کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔
    لکھتے رہیں اور اپنے احساس کی خوشبو سے رنگ بکھیرتے رہیں۔
    جزاک اللہ

  • 7 فروری، 2016 کو 7:14 AM
    گل :

    السلام علیکم زحال بھائی
    کل رات سے لے کر ابھی تک کئی بار اس بلاگ کو بہتے آنسو کے ساتھ پڑھا ہے اور سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا اس پر تبصرہ کروں؟ میں نے محسوس کرنا چاہا کہ جب آپ کی پہلی نگاہ کعبہ پر پڑی ہو گئی تو کیا حالت ہوئی ہونی دل کی؟ واقعی یہ تو ایک ایسے خواب کی سی کیفیت ہے جس سے کبھی جاگا ہی نہیں جا سکتا۔۔ آپ نے تو اب ساری زندگی اس خوبصورت خواب میں گزارنی بھائی۔۔۔ بس اب آپ عمرے پر جو جا رہے ہیں ناں تو میری سفارش ضرور کیجئے گا کہ بس اللہ جی اب اور انتظار نہیں ہوتا ہم سے۔۔
    جو تمہیں بھی میری طرح کہیں ناسکون قلب نصیب ہو
    میری بات مانو تو میں کہوں، میرے ساتھ سوئے حرم چلو

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔