بدھ، 13 ستمبر، 2017

لاہور کا درویشانہ رنگ

4 تبصرے
جولائی کے اولین دنوں کی اتوار کی صبح لاہور سنولایا ہوا تھا نیم خوابیدہ سا چھٹی کی صبح کا اونگھتا ہوا لاہور - لوئر مال سے ڈیوس روڈ تک سڑکیں قدرے خالی تھیں - میں لاہور سے ملاقات کے لیے اپنی عارضی قیام گاہ کے خنک  کمرے میں جا پہنچا- شہر کو دیکھنے  ، ملنے کے لیے میرے پاس اُن مغل بچوں سی نگاہ تو نہ تھی جو اس پہ فریفتہ تھے - ابھی کچھ دیر انتظار کرنا تھا شہر کے جاگ اُٹھنے کا پھر ایک دیرینہ دوست اپنا تروتازہ چہرہ لیے آ موجود ہوئے گاؤں کے اس معصوم باسی سے پہلی ملاقات اس  کی سادگی کے رنگ میں رنگی
میں دارالشکوہ سی عقیدت کی دولت سے محروم لیکن اس دن اس کے جذبوں کی آنچ کو محسوس کررہا تھا اس درویش شہزادے کی کچھ تڑپ دل کو آلگی تھی میں جلد ازجلد داتا صاحب حاضری کے لیے جانا چاہتا تھا اور اپنے رہنماؤں کا منتظرکہ جن کی کچھ امانت میرے پاس تھیں  پہلے وہ ان کے حوالے کرنا ضروری تھا - انتظار ختم ہوا کوچوان آپہنچے جدید عہد کے لوگ جو خلوص اور مہمانداری کی روایت سے پیوستہ ہیں،  پُرتپاک تبسم تھا ، تاخیر کی معذرتیں تھیں سواری اور مہمان نوازی سمیت
شہر اب چند گھنٹوں میں جوش اور جذبے سے لبریز بیدار تھا ، ہوا میں گرماہٹ تھی لیکن بیزارکردینے والی کوئی بات نہیں
داتا صاحب میں ایک دوست دیر سے منتظرتھا اپنی محبت اور خلوص لیے -
داتا صاحب کے دربار میں کچھ ہے ایسا کچھ خاص جو تحفظ اور اپنائیت کے ساتھ کُھلی بانہوں سے گلے آلگتا ہے - یہاں دو اور احباب بھی آپہنچے - کچھ وقت وہاں رہے - اب ایک بار پھر شہر کی سڑکیں تھیں کوچوان کی مہارت تھی جو پُرہجوم شاہراہوں پہ سواری اُڑے جارہا تھا - دوپہر کا کھانا لاہور کا مخصوص خوش خوارک ماحول میں اپنے پسندیدہ بلاگ اور بلاگرز کی باتیں کیں - وقت بھاگ رہا تھا-
وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ
   پھرفضاؤں میں وقت عصر کا رنگ تھا مسجد کا صحن اس شہر کا ایک اور روپ-  دن کے زوال  کا یہ  وقت لاہور پہ مجذوبانہ  حُسن لے کر اُتررہاتھا ، سکون آوار اور پُرکیف سا یہ صوفیائے کرام کا شہر وقت کے ساتھ بھی لگا  اور تاریخ کا ورق بھی-
یہاں ایک کم گو صوفی منش کی ملاقات کی درخواست موصول ہوئی انکار ممکن نہ  تھا- اس لاہور کے باشندے سے پہلی ملاقات  تھی شام کی چائے کی دعوت اور اس کم سخن میزبان کی خلوص بھری مسکراہٹ تھی- شہر کا ماحول شاہ حُسین کی کافیوں سا لگا اس وقت-  دھمیے لہجے میں گفتگو کرتےشہرِ یار تھے پھر مغرب کا وقت
عرش منور بانگاں  ملیاں 
سنیاں.... تخت  لاہور
خوش قسمتی یہ ہے کہ فلاح کا بلاوا آئے آپ اپنے دوستوں کے ساتھ اس پر لبیک کہیں - مغرب کا وقت دن کا میرا پسندیدہ ترین وقت ہے جو مسجد کی سمت جاتے ہوئے باغِ گل ، قابیل اور روشن جمال کی ہمراہی جو یوں چلے اس جانب کے دل باغ باغ ہوگیا ذہن میں آقاﷺ کا فرمان مہکنے لگا
"آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے"

رات کی ابتداء تھی ایک ٹریفک سگنل پہ گاڑی رُکی وہاں ایک ملنگ کھڑکی سے آلگا نجانے کون تھا کوئی اصل فقیردوریش یا رنگ باز گاڑی چل پڑی ملنگ نے ایک جملہ کہا ------------- سانس بھاری سی محسوس ہوئی ایک جملہ سرگوشی کا سا تھا معلوم  نہیں میرے ہمراہ دو لوگوں نے وہ سنا بھی یا نہیں اس پر توجہ دی بھی - وہ جملہ وہ سرگوشی اُن کے لیے نہیں تھی وہ صرف میرے لیے تھی - لاہور کی سرگوشی ملنگ کا ایک جملہ تھا حکم کی صورت میں  رات بھر سوتے جاگتے ملنگ کا کہا جملہ سنائی دیتا رہا -
صبح کریم کا باریش  گاڑی بان آپہنچا رات کا اختتام ہوا لاہور سے رُخصت ہونے کا وقت اس نورپیرکا ویلا سڑک کنارے
ایک خرقہ پوش ملنگ بیٹھا تھا اتفاق تھا یا کچھ  اورگاڑی وہاں سگنل کے باعث رُکی  ملنگ  نےمجھے دیکھ کے زیرلب  کچھ کہا ،اُٹھا نہیں،  کچھ مانگا نہیں لیکن ---- لاہور کی سرگوشی لاہور کا پیغام وہ  جو میرے لیے تھا پھر مجھ تک پہنچا یاگیا-لاہورکی  اس سرگوشی سے سوچ کی کونپلیں پُھوٹ رہی ہیں حرفِ دعا بن رہی ہیں قبولیت کی منتظر



ہفتہ، 9 ستمبر، 2017

اصل Socialization اور Social media

1 تبصرے
اصل Socialization اور Social media کی دوستیوں کا فرق اصلی اور کاغذی مصنوعی آرائشی پھولوں سا ہے
اصل میل جول سے جو احساسات ، گفتگو اور باہمی محبت اور رشتے استوار ہوتے ہیں ان کی مہک سے زندگی معطر ہوتی ہے- جبکہ Social media کی دوستیاں اس کا متبادل نہیں ہوسکتیں ہاں وقت گذاری اور گپ شپ تو ہوسکتی ہیں لیکن ایک
منصوعی آرائش کی مانند - ان پہ بات بے دھڑک لکھی کہی جاسکتی دوسرے کے احساسات کی پرواہ کیے بغیر چونکہ لکھے    لفظ ہوتے ہیں ان میں تاثرات کا عمل دخل نہیں ہوتا ، دوسرے کی چہرے کے تاثرات کے مطابق لہجے کو نرم اور الفاظ کا مناسب  چناؤ ممکن نہیں ہوتا لکھے جانے والے  جملے ہوتے ہیں  اور محض عمل اور ردعمل ہوتا  ہے جو اکثر بہت شدید اور غیرمتوازن ہوجاتا ہے جوکہ اکثر ہم  Social media پر  سیاسی اور مذہبی مباحثوں دیکھتے ہیں - اکثر ان میں ایک بات کہی جاتی ہے "سچ کڑوا ہوتاہے"
مجھے اس جملے کی سمجھ نہیں آتی سچ کیسے کڑوا ہوسکتا ہے اس کی تو ہمیں تلیقن کی گئی ہے  ایک مسلمان کی تو شناخت ہی سچ وحق ہے - بات یہ سچ کہنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے  سچ نہیں -

نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: 
اِنَّ الصِّدْقِ یَھْدِی اِلَی الْبِرِّ وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَںَّۃِ (متفق علیہ) 
’’بے شک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘ 

ہم  نے سماجی  میل جول کم کردیا اس کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں اور سوشل میڈیا کو زیادہ اہمیت اور وقت دے رہے ہیں فیس بُک اور ٹوئیٹر پہ زیادہ ایکٹیو ہیں
میڈل کلاس کی  قناعت اور اخلاقیات  پر سوشل میڈیا اثر انداز ہورہاہے - کھانے کے لیے مہنگے ریستوران  اور ان کی تصاویر اور اس سے دیگر لوگوں کا متاثرہونا
قدرے  تشویش ناک ہے ہم دکھاوے کے جانب  غیر شعوری طورپر مائل ہورہے  ہیں - شاید کچھ وقت لگے ہمیں  اس بدلتے وقت کو سمجھنے اس کا ساتھ اپنے اُصولوں
اور سماجی ماحول اور اخلاقیات  کو ساتھ لے کر چلنے میں - ہمیں سوشل میڈیا  کے تعلقات  اور  اس پر اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا اور خود کو اس کا اس قدر عادی نہیں بنانا ہوگا کے ہمارے  دیگر تعلقات  متاثر نہ ہوں  ہم سوشل میڈیا کےان منصوعی آرائشی پھولوں سے زندگی  بھر رہے لیکن اصل پھولوں سے دور ان کی مہک سے دور ہوتے جارہے ہیں جو اصلی اور سچے تعلقات  ہیں جن سے زندگی کی رونق اور خوبصورتی ہے -