بدھ، 23 دسمبر، 2015

ہم کب ہم کب پہچانیں گے

2 تبصرے
فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ الْقُرْآن.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔‘‘
(صحيح، مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 512، الرقم : 746) 
یہ حدیث ہم نے کئی بارپڑھی سنی ہوگی لیکن ----- اس پر غورکرنے یا حضوراکرمﷺ سے محبت کا دعٰوی کرنے عید میلاد النبی ﷺ منانے والے اور اس
کی مخالفت میں ایک دوسرے کو سرے سے مسلمان نہ ماننے والے دونوں فریقین 
اپنی ساری توانائیاں اور محنت ایک دوسرے کی مخالفت میں سرف تو کرسکتے ہیں لیکن عمل کرنے ، اعتدال ، درگزر اور خلوص کو نہیں اپنائیں گے - ڈھونڈ ڈھونڈ کر مخالف نکتے یہ ثابت کریں  گے کہ ہم ہیں سچے مسلمان - کسی نے شرک اور بدعت کا شور برپا کررکھا ہے تو کسی نے محبت رسول ﷺ کو صرف جشن منانے اورایک رسم  نبھانا ہی سمجھ لیا ہے - ہم نے کبھی قرآن کریم کو سمجھنے کی ضرورت نہیں سمجھی اسے ثواب کی خاطرپڑھا ہے عمل کے لیے نہیں اسی طرح حضوراکرمﷺ کی ذات اقدس کو آپ کی سیرت کو عقیدت کی نظرسے تو دیکھا ہے محبت کا دعویٰ بھی کیا لیکن اس کو اپنانے کی کوشش نہیں کی - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حلم، بردباری، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی۔ ان رویوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر سوسائٹی میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی تحمل و برداشت کے ذریعے سوسائٹی کے اندر اعتدال و توازن قائم ہوتا  ہے۔ یہ رویہ انسانوں اور معاشروں کو پرامن بناتا اور انتہا پسندی سے روکتا ہے۔ ایسا معاشرہ ہی عالم انسانیت کے لئے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف حلم، تحمل، عفو و درگزر اختیار کرنا ہے اور آج ہم میں یہی نہیں - ہم عید میلاد النبی صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ایسے ہی مناتے رہیں گے اور یوں ہی اس کی مخالفت کرتے رہیں گے کیونکہ ہم اسی طرح خود کو مسلمان ثابت کرسکتے ہیں-
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا 
 اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَايَعْلَمُوْن.
باری تعالیٰ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے پہنچانتے نہیں ہیں۔
(صحيح مسلم، 4 : 2006، الرقم : 2599)
ہم کب پہچانیں گے اپنے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو-

( اس تحریرمیں چند سطوراور احادیث  ماہنامہ منہاج القرآن کے ایک مضمون سے لی گئی ہیں)

بدھ، 25 نومبر، 2015

ان پڑھ

3 تبصرے
میں خود کوعلم دوست اورکتاب خواں سمجھتارہا ، مجھے یہ گمان رہا کہ کتاب سے میری محبت گہری ہے اورمیں علم کے حصول کے لیے کوشاں ہوں ، لاتعداد کتابوں کا مطالعہ کیا ہے - شاعری کی لطافتوں سے واقف ہوں جدید اورقدیم شعراء کا کلام پڑھا اور بہت سی غزلیں ، نظمیں اوراشعار ازبر ہیں اوراشعارکی تشریح اور ان کے پیچیدہ مضامین اورتشبہات کی تشریح باآسانی کرسکتاہوں - نثرکو سمجھتاہوں اورکلاسیکی نثرسے لے کرموجودہ دورکی ادیبوں کی تصانیف پہ سیرِ حاصل بحث مجھے بھاتی ہے میں نثر کے مختلف اسلوب سے واقفیت کا دعویدارہوں کسی نثرپارے کا ایک جملہ پڑھ کے بناء دیکھے ادیب کا نام جان لیتاہوں -تاریخ ہو یا فسلفہ میری دلچسپی کا سامان  ، علم نفنسیات ، سماجیات اور معاشیات کی کُتب بینی کا شائق ، سوانحی حیات اس لیے پسند رہیں کہ ان سے سبق سیکھ سکوں اور بڑے لوگوں کے حالات اور طرزِ حیات کو جان سکوں سمجھ سکوں- 
 کتاب کا مطالعہ میرے روزمرہ معمولات کا حصہ ہے روزانہ بس میں سفرکرتے ہوئے ، شام کو گھرآکرضرورکتاب پڑھتاہوں - کتاب پڑھے بغیرمجھے نہیں یاد میرا کوئی عام یا خاص دن گذراہو- اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کی خاطراپنی عادت کوقائم رکھنے کے لیے- کتاب بہترین دوست ہے وغیرہ وغیرہ میرے نوک زبان پہ ایسے جملے ہوتے ہیں ، اپنی کتابوں سے محبت کا دعویدار بھی اور ایک وسیع کلیکشن رکھتاہوں اپنے بُک ریک کو دیکھ پُھولے نہیں سماتا - 
فارسی اس لیے سیکھنے میں دلچسپی ہے کہ حافظ کا دیوان اس زبان میں ہے وہ پڑھ سکوں ، ترکی ، فرانسیسی اور روسی زبانوں کو سیکھنے کے لیے دل ٹرپتا رہا کہ کیسا علمی وادبی خزانہ ان زبانوں کی کتابوں میں ہے اس پہ دسترس پالوں - 
کیسی کیسی لگن اورچاہ ہے میں میرے دل ان کتابوں کو پڑھنے کی اسی پڑھنے کی چاہ میں ایک دن مجھ پہ آشکارہوا وہ بھید کُھلا دنگ رہ گیا -- میں --- میں ---میں
"ان پڑھ " ہوں --- عمر کہ اس حصے میں اس بات کا معلوم ہونا کسی طوفان سے کم تو نہیں نظریں جھکی جاتی ہیں کسی کو یہ معلوم ہوگیا تو؟ شرمندگی کی لہر اُٹھی تو پسینہ پُھوٹ بہا - 
کتاب سامنے موجود سمجھ نہیں سکتا ندامت سی ندامت ہے - ساری کتابیں پڑھ لیں سمجھ لیں لیکن ایک یہ کتاب ہی نہ سمجھی حروف پہ انگلیاں پھیریں لفظ پہچانے مگر معنی نہیں جانے ، نہیں سمجھے ، ایصالِ ثواب کےلیے اسے اُٹھایا ، رمضان میں اس کو باعث اجروثواب پایا لیکن ------ سمجھا نہیں اس کتاب کو چوما ، ماتھے سے لگایا جُزدان میں سجایا سمجھا نہیں - یہ جو دین ودنیا کی بھلائی سے لبریز ہے جس کاحرف حرف اُجالا اس سے اپنے تاریک دل ودماغ کو روشن کرنے کا خیال تک نہیں آیا - کلام الہی کو ہی نہیں سمجھا ، سمجھ کرپڑھا نہیں تو مجھ سے بڑھ کرجاہل اور ان پڑھ کون ہوگا -


وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (سورة القمر)


اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے-

میں سمجھنے کی کوشش میں ہوں ندامت سے شرمسارہوں اور میں ان پڑھ اس کی رحمت کا طالب ہوں اورحصول علم کے لیے اس کی کتاب کو سمجھنے کےلیے اس کے آگے دعاگو ہوں 

وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (سورۃ طٰہ)

اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔




ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

میرے ساتھ سوئے حرم چلو

5 تبصرے

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا -(احزاب - الآية 43)

(وہی تو ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔ تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے۔ اور خدا مومنوں پر مہربان ہے)
سب کام اُس کی رضا سے ہوتے ہیں وہی خیال کو دل میں لاتااورخواہش بناتاہے اورپھرحرفِ دعاکی صورت لبوں سے اداہونے پرقبولیت کی سندبھی عطا فرماتاہے - مجھے الفاظ میں کیفیت کو بیان کرنا ہے اُس کفیت کو جو مجھ پہ اب تک طاری ہے اوراحباب کی فرمائش پراسے لکھنا ہے اور اس سے بڑھ کر مجھے اس تحریرکو اللہ تعالٰی کے شکرکےلیے ایک چھوٹی سے کوشش کی صورت پیش کرنا اور اُس کے اُن بندوں کاشکریہ اداکرنا ہے جنھوں سے اس عظیم سفرکومیرے لیے اللہ کے حکم سے آسان بنایا اور وسیلہ بنے کاروانِ حراگولڈن ٹریول  کے منوراحمدصاحب ، عمران سرور ، اویس احمد اورمحمداحسان شیخ اور دیگراحباب نے ہمیں ہر شکایت اور تکلیف سے بچائے رکھا اور یکسو ہوکر اس فرض کی بجاآواری کو سہل بنایا- میری خواہش عمرہ کرنے کی تھی لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے التواء کا شکارہوتی رہی لیکن جب نیت حج بیت اللہ کی ہوئی تو آسانیاں اللہ تعالٰی نے یوں عطافرمائیں  کہ یقین مشکل ہوگا لگا ایک خواب ہے- مجھ پر وہ مہربان ہے اتنا مہربان اس کا اندازہ ہونے لگا - جب میں یہ سنتاتھا کہ حج کا بُلواآتاہے تو سوچتا تھا اللہ کے مقرب بڑے متقی لوگوں کو اللہ یہ سعادت نصیب فرماتاہوگا اُن کو جن کے اعمال مقبول ہوں گے جو کسی طورپرتو اُس کے مقرب ہوتے ہوں گے ، مجھے ان میں اپنا آپ نظرنہیں آتا- پھرخیال آیا وہاں جیب کترے بھی تو بُلائے جاتے ہیں  ، گناہ گاروں کو وہ وہاں بُلاکرموقع دیتاہے توبہ کا ، استغفارکا اور اپنی راہ پہ چلنے کا سنبھلنے کا - مجھے اپنی گناہوں کی گٹھری کو سرپہ رکھ کے ، ندامت کے ساتھ یہ سفرکرنا تھا اور میں نے کیا - مجھے مدینہ منورہ میں اپنے غلیظ وجود کو اُن کے قدموں میں رکھنا تھا جن کے اللہ تعالٰی نے فرمایا
( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ)
مجھے اُن کی سفارش درکارتھی میں سیاہ رو اللہ کے سامنے کیسے جاتا ,میرے لیے رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ کے شہرکا سفروہاں کی حاضری پہلے منظورہوئی  میں محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ آولہٰ وسلم کے شہرمیں تھا اس شہرکی فضا اتنی معطرہے اس قدر سکون آوار ہے گرم ہوابھی یہاں کی جسم کوراحت بخشتی ہے - یہاں آکراحساس ہوا ہم پہ اللہ کا کتنا کرم ہے کہ اُس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا - اپنے حبیب محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ آولہٰ وسلم کا اُمتی ہونے کا شرف عطاکیا-مدینہ منورہ میں پہلی حاضری تھی ہوٹل میں سامان رکھا تو مسجدنبوی سے عصرکی اذان کی صدائیں آرہی تھی بُلاوا فلاح کا پہلی بار اس صدا پر دل نے لبیک کہا ، میں مسجد کا راستہ نہیں جانتاتھا کسی سے پوچھ  کراُس جانب چلا تو ایک ہجوم تھا انسانوں کا جواُس طرف رواں تھا یہ میرے مسلمان بھائی تھے ان سے ایک ہی پل میں رشتہ بن گیا ، ازبک ، عرب ، مصری ، سوڈانی ، ترک ، ایرانی سارے اپنے حقیقی بھائی لگے یہ کرم کی پہلی بوندتھی -میں نے نماز مسجد کے صحن میں ادا کی اندرجانے کا حوصلہ ناپاسکا ، مغرب اور پھرعشاء وہی اداکیں- میں مسجد میں جاتاتو روضہ اقدس کے جانب جانے کی ہمت نہ پاتا - وہاں قیام کے دن ختم ہونے کے قریب تھے ایک روز یوں لگا کوئی ہاتھ پکڑکے اُس جانب لے گیا- اس قدر محبت وعجز میں رچے میرے مسلمان بھائی چہرے پہ میٹھی مسکراہٹ سجائےاُمتی اُمتی اخلاق سے چھلکتے حبت اورسلامتی میں لپٹے ہرجانب تھے یہاں-
 اصحاب صفاء کے مقام پرمیں اپنے نبی صلٰی اللہ وآلٰہ وسلم کے قدمین شریفین کی جانب بیٹھ کر اپنی ندامتوں کا، محرومیوں کا، کوہتایوں کا رونا رویاتھا ،میں آپ صلٰی اللہ وآلٰہ وسلم کے روضے کے رُخ مبارک کی خواہش کی تو حیدرآبادسندھ کے ایک نوجوان نے مجھے وہاں تک پہنچادیا میں اکیلا بھلا وہاں کیسے جاتا ، جالیوں کے سامنے سلام پیش کیا -
 میں اپنے آقاصلٰی وآلٰہ وسلم کے حضورشرمسارتھا ، سراُٹھانے کی سکت نہیں تھی پھر دل سکون سے بھرنے لگا یہ میرے آقا محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ آولہٰ وسلم کا درباراقدس ہے جہاں سے کوئی خالی نہیں آتا وہ سخی ایسے ہیں کہ روح کو سیراب کردیتے سکون کوقرار سے دل کو مالامال کرتے ہیں - اس شہرنے مجھے رنج والم سے آزاد کیا مجھے قرارعطاکیا-مدینے کا مزاج دھیما ہے ، اس میں جنت کا ٹکڑاہے تو ہوائیں بھی جنت کی سی ہیں -
مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفرتھا ایسے میں مجھے وہ تمام باتیں یاد آئیں جوسنی تھیں جومجھے سفرِ حج سے قبل اس کی مشکلات کا کافی احباب نے بتایاتھا اور تکالیف کا ذکرکیا تھا - میں اللہ کے گھرکے جانب سرجھکائے چلا ابیار علی میقات تھا جہاں سے عمرے کے نوافل اورنیت کرنی تھی - دو سفید چادروں نے مجھ سے فیشن کونشس کواپنے وجود پہ ڈالتے ہی حیران  کردیا یہ احرام دنیا کا بہترین اور قیمتی لباس بن گیا یہ اللہ کا برینڈنیم لباس ہے اس سے بڑھ کرکون سا برینڈ ہوگا - احرام جسم کو ہی نہیں ڈھانپتا روح کو بھی ستردیتاہے ، چھپالیتاہے سارے عیب سارے گناہ یہ کفن سا لباس - مجھ پرلازم ہوا اس کی پاکیزگی کو قائم رکھنا تاعمر کہ یہ جسم سے اُترا بھی تو روح سے پیوست رہے گا ، دعاکی تھی مولا مجھے اس کی توفیق عطا فرمانا مجھے اس کو دغاوں سے بچائے رکھنا اور استقامت عطافرمانا یہ آپ کے کرم سے ہی ممکن ہوگا-
میں نے حج کی تیاری کتابوں ، دستاویزی فلموں اورپہلے اس فرض کی ادائیگی کرنے والے احباب سے ، پڑھ سن کرکی اور یہ تیاری صرف اور صرف اپنے ذہن کو صاف رکھنے اورجسم کوآرام سے دور رکھنے اور مشکلات کے لیے خود کوتیارکرنے کے علاوہ اپنے جذبات میں توازن اوراعتدال کی کوشش تھی - مجھے کسی روحانی تجربے اورروح پرورمنظرکی طلب نہیں تھی فقط اللہ کے حضوراس کے گناہ گاربندے کی صورت میں پیش ہوناتھا اس سے معافی طلب کرنے تھی -
مکہ مکرمہ میں رات گئے پہنچے سامان کمرے میں رکھ کر حرم شریف جانا پہلا عمرہ ، پہلی زیارت ، پہلی حاضری کسی گھبراہٹ کاشائبہ نہ تھا یہ کرم مجھ پر میرے آقا محمدمصطفٰی صلٰی اللہ علیہ وسلم کا حاصل تھا ورنہ اس سے قبل تو ایک گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ ہرنئی جگہ ، سفر ، مقام اور کام سے پہلے مجھے آگھیرتی تھی لیکن اب ایسا کچھ نہ تھا - سرجھکائے گروپ کے ایک ساتھی رشید صاحب کے پیچھے چلتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے ان کوکہاا جب خانہ کعبہ نظرآنے لگے تو بتایئے گا پھر کچھ دیرچلنے کے بعد ان کے کہے پہ سر اُٹھا کے دیکھا ----
یہ یہ یہ خانہ کعبہ ہے حیرت سے سوچا کچھ مایوسی ہوئی اس میں نہ تو کوئی کشش نہیں کوئی اپنائیت نہیں دل میں ملال آیا سیڑھیاں اُتر کر مطاف میں قدم رکھا طواف شروع کیا ، چکر دورسے شروع کیا لیکن یہ کیا ---- خانہ کعبہ ساتھ محسوس ایک ہاتھ بڑھاکے چھُولوں ---- قلب بدلتے ہیں جذبات یوں پلٹتے ہیں یہ اللہ کا گھراس قدر پُرکشش اوردل میں کسے آبسا چندلمحوں میں----- دوران طواف خانہ کعبہ کی جانب رُخ کرنا اور اسے دیکھنا منع ہے لیکن ------ میرا چہرہ اُدھر ہی گھوم جاتا اپنی بہن کے باربارکہنے پر کہ طواف کے دوان اُدھر چہرہ مت کرومیں با مشکل سامنے دیکھتا اور پھرچہرہ گھوم کے خانہ کعبہ کی جانب ہوجاتا- طواف ہمارے جسم نہیں کرتے یہ روح کا کام ہے وہ وجدمیں آکے چکرلگاتی ہے وہ جو امرالہی سے ہم پُھونکی گئی وہ صدقے اورقربان ہونے لگتی تو جسم کوساتھ لگالیتی ہے پھر جسم نہیں تھکتا ، بے آرامی ، رکاوٹ ، لوگوں کے رویئے اور دیگرباتیں وجودکھودیتی ہیں اب معاملہ رب کا اور روح کا ہے - طواف مکمل ہوا دونفل پڑھتے ہوئے نیت کی اور جب کہا منہ میراکعبہ شریف کی طرف تو نگاہیں اُٹھ گئیں اُس طرف وہ سامنے ہے آج تصورحقیقت میں موجودہے بچپن سے اب تک سیکھی نماز کی نیت اورادائیگی میں تصورہی کیا آج سامنے ہے روح اب پھروجدکرتی ہے نیت ہوگئی اب خانہ کعبہ کا یہ منظرمحفوظ کرلیا روح نے آنکھ میں تو آنکھ شکرانے میں نم توہونی ہی تھی - اب آب زم زم تھا معجزے کا پانی محبت کا ، قربانی کا ، اللہ کی رضا پہ راضی ہونے کا انعام جو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ماں حضرت ہاجرہ کا انعام ان کے طٖفیل ہمیں عطا ہورہاہے - سعی قربان قربان جائیں اللہ کے انعاموں کے سیدہ بی بیحضرت ہاجرہ  کا عمل رہتی دنیا تک دہرایاجائے گا - سعی کے دوران مخصوص مقام پہ دوڑنے کا حکم ہے اور یہ حکم صرف " مردوں کے لیے ہے " اب ماں کا عمل بیٹے دہرائیں"- سعی کا عمل پیروں سے نہیں سروں سے اداکیا جائے تو بھی کم ہے -
حج محبت ہی محبت ہے بھائی چارے کا عمل ایثارکا نام اللہ کے ساتھ رابطہ بڑھے تو اس کی مخلوق سے پیاربھی بڑھ جاتاہے اس کو وہاں عام دیکھا جاسکتاہے حرم شریف میں میرے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے نماز کا انتظارتھا نگاہیں کعبہ شریف کی جانب تھیں وہ صاحب پوچھنے لگے آپ پاکستان سے ہیں میں کہا جی بڑی شفیق مسکراہٹ سے کندھے سے لگا ابھی میں ان کے لہجے سے اندازہ لگانے کی کوشش ہی کررہاتھا کہ کہنے لگے میں " ایسٹ پاکستان سے ہوں" میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی اورآج تک ملنے والے کسی بنگالی سے یہ نہیں سنی تھی میرے چہرے پہ حیرت دیکھ کرمسکراکے کہنے لگے بنگلہ دیش نا ایسٹ پاکستان ہی توہے
اللہ اکبر خطبہ حجۃ الوداع میں آقاصلٰی اللہ علیہ آؒلہ وسلم کا فرمان تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی سامنے عملی صورت میں تھا - 
پاکستان میں رہتے ہوئے اوراب بیرون ملک قیام میں ہمیشہ میرے لیے پاکستان کے خلاف کسی کی کوئی بھی بات سننا برداشت سے باہررہاہے مجھے سن کے آگ لگ جاتی ہے مجھے لگتا کسی نے میرے منہ پہ طمانچہ ماردیا - مجھے حرم شریف میں اللہ نے پاکستان کی فکرسے آزاد کرنا تھا دیگر فکروں کی طرح وہ بڑے اسباب بناتا بڑے اہتمام ہیں اس کے کوئی کام حکمت سے خالی نہیں - طواف چونکہ میں اپنی بہن کے ہمراہ کرتا رہا اور رش اور اُن کی طعبیت کے باعث خانہ کعبہ کے بہت قریب نا جاسکا - ایک دن اُن کے ساتھ معمول کے طواف کے بعد میں اکیلا دوسرے طواف کے لیے پہنچا بلکہ پہنچایا گیا - طواف کے ساتھ چکرخانہ کعبہ سے قریب سے قریب تر ہوتے مکلمل کئے اور پھر خانہ خدا کی دیوار کے قریب ہوا اوراسے ہاتھ لگاکے اپنے سوئے نصیب جگائے یوں لگا کسی نے ہاتھ پکڑلیا ہو اندرسے ہاتھ دیوارکعبہ سے لوہے کا مقناطیس سے لگنا محسوس ہوا گرفت تھی کسی کی میرے ہاتھوں پر بیشک بیشک وہ مجھے سے گرے ہوئے گناہ گاروں کو بھی اپنالیتاہے تھام لیتاہے وہی سہاراہے - میں اشکبارمحودعاتھا سردیوار سے لگاکر ساری زندگی کے رونے رویا اپنے رب کے حضور - بڑی دیربعد اردگرد کی خبرہوئی اپنےساتھ ایک صاحب جن کا سرخانہ کعبہ کی دیوار سے لگا تھا ان کی آواز نے چونکایا ان کی دعائیں ساری التجائیں پاکستان کے لیے تھیں " اللہ پاکستان کی حفاظت فرما" اللہ پاکستان اوراللہ پاکستان ساری دعائیں انہی صداؤں میں تھیں مجھے اب بس آمین کہنا تھا باآواز بلنداللہ سے کہا وہی کردیں جو یہ کہہ رہا ہے - وہاں جہاں اپنے لیے دعائیں التجائیں ہوتی ہیں وہاں کوئی پاکستان کے لیے ہی گڑگڑارہا تھا رورہا تھا دل سکون واطمینان سے بھرگیا اللہ نے پاکستان کی سلامتی کا پیغام مجھ تک پہنچادیا اس شخص کی زبان سے اور فکر سے آزادکیا "ان شاءاللہ پاکستان سلامت رہے گا اوراس کا امن وسکون بحال ہوگا" سرگوشی دل نے کی 
اللہ اکبر- 
حج کے ایام سے قبل ہم علیحدہ کمروں میں مقیم تھے اپنے ساتھ گئے گروپ کے لوگوں سے زیادہ سامنا نہیں ہوتاتھا سب اپنی لگن میں خوداپنے آپ سے لاپرواہ بس 
رحمتوں میں بھیگ رہےتھے کون ہے کیسا ہے کسے اس کی ہوش تھی - سامنا ہوتا تو چندلمحوں کا اندازہ ہوتایہ شاید ہمارے گروپ میں ہیں سلام دعاہوتی سرراہ - پھر ہم عزیزیہ پہنچے منٰی کے قریب کی ایک رہائشی بستی میں یہاں چارمردوں اور چارخواتین کے علیحدہ کمرے تھے یعنی روم میٹ - میں اپنے کمرے میں پہلے پہنچا پھر نسیم کاکڑ، آصف بھائی اور اسحاق بھائی - میرےلیے یہ کمرے کی شراکت کا پہلا اور الحمدللہ بہترین تجربہ رہا - یہاں ادگراحباب سے بھی ملاقاتیں رہیں اورخوب رہیں - یہاں خوش اخلاق اورخوش لباس بوستان برادارن تھے ، ایک پیارادوست طٰہ  ملا ، نجم احمدصاحب کی صحبت نصیب ہوئی ، قاضی صاحب کا روشن چہرہ اورشاندارشخصیت سے قربت ملی ، ڈاکٹرمراد، باسط کھوسہ اور ان کے والد ، دادااوربھائی خلوص کے پیکرملے- ہرفرد "ایں ہمہ خانہ آفتاب است"
کی صورت نظرآیا - رشید صاحب ، افتخارصاحب اور ان کے عزیز جن کا نام تک میں نہیں جانتا اس قدر پیارسے ملتے رہے اوردل میں گھرکرگئے-
لبیک اللھم لبیک ،لبیک لاشریک لک لبیک 
ان الحمد والنعمة لک والملک لاشریک لک
آٹھ ذوالحجہ 
اب ہم نے حج کا احرام باندھا نیت کی نفل اداکئے اور منٰی روانہ ہوئے - یہاں کا ایک دن کا قیام  حدآرام دہ رہا پچاس کے قریب لوگ ایک خیمے میں تھے جگہ کم ضرورتھی لیکن تنگ نہیں دلوں میں جگہ والی بات یہاں صادق آئی تھی ہرایک دوسرے کے لیے جگہ بنانے میں پیش پیش تھا وہ منورصاحب ہوں ہمارے گروپ لیڈر یا عمران سرور - یہاں میں مفتی محمدنعیم صاحب کا ذکرکروں گا جوہمارے گروپ کے ہمراہ تھے مفتی صاحب کو اللہ تعالٰی جزائے خیردے قدم قدم پہ ہماری راہنمائی فرماتے رہے- عشاء کی نماز کے بعد ہم رات میں ہی رش سے بچنے کی خاطرعرفات روانہ ہوئے یہ -
نو ذوالحجہ 
 رات قیام کے بعد صبح ہوئی رحمتوں بھری صبح یوم حج کی صبح گناہوں سے معافی کادن ایک عظیم دن رحمتوں بھرا اللہ نے ہمیں عطافرمایا تھا - وقوف عرفہ زوال سے شروع ہوتاہے مغرب کی اذان تک جاری رہتاہے اللہ کے حضورگڑگڑانے کا وقت کی رحمتوں سے شرابورہونےکے لمحے دن گرم تھا بحد گرم  اور پیاس تھی منظرمیدان محشرساتھا ہرایک کو اپنے آپ کو بخشوانے اللہ کے آگے رونے کے سواءکسی چیز کی پرواہ نہ تھی گرمی تھی لیکن آج سورج کی تپش کو کون خاطرمیں لائے آج ہر سختی برداشت کرنا باعث رحمت تھا پھرکون گھبرائے-
 إنَّ اللهَ يُباهي بأهلِ عرفاتٍ أهلَ السَّماءِ ، فيقولُ لهم : انظروا إلى عبادي جاءوني شُعثًا غُبرًا  . صحيح ابن خزيمة   2839

بیشک اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اہل عرفہ کے تئیں فخریہ طور پر کہتا ہے : میرے بندوں کو دیکھو ! وہ کس طرح گردآلود و پراگندہ  بال ہوکر میرے لیے آئے  ہیں۔ 
 زندگی نثارکرنے والے دنوں میں ایک دن یوم عرفہ- آج یہاں مغرب تک قیام کرنا لیکن نماز اداکئے بغیرمزدلفہ روانہ ہوناتھا یہی اللہ کا حکم ہے - مزدلفہ کے قیام کی شب کنکریاں چننے اور عبادت کی شب -
دس ذوالحجہ 
فجرکی نماز اداکرکے منٰی جاناتھا شیطان کو کنکریا مارنی تھیں آج صرف جمرہ عقبی کوسات کنکریا مارنی دائیں ہاتھ میں کنکریاں اوربایاں ہاتھ سینے پہ مارکے اندر کےشیطان کو بھی للکارا- آج تجھے نہیں چھوڑنا مردود - کنکریاں مارنے کے بعد قربانی اورسرمنڈوانے کاعمل احرام کھولنا اور طواف زیارت - چونکہ ہماراقیام صرف بارہ ذوالحجہ تک تھا توہمیں طواف وداع بھی اسی روزکرناتھا-گیارہ اوربارہ کی رمی کے بعد بارہ ہی کو ہماری روانگی تھیٓ مجھے اس بات کا علم نہیں تھاکہ
ہم حج پہ جاتے ضرورہیں لیکن وآپس نہیں آتے ہیں وہیں کے ہوکےرہ جاتے ہیں
دل وہاں سے ایسا مانوس ہوتاہے کہ انھیں مقامات کا پہ فداہوتارہتاہے ساتھ نہیں آتا
حج میں مشکلات ہوتی ہیں  لیکن اس میں اس قدررحمتیں اوربرکتیں ہمارے دامن اوردلوں میں بھرتی جاتی ہیں کہ کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی روکاوٹیں حائل ہوں بھی توراہیں جلدکُھل جاتی ہیں -ہمارے لیے اس حج کے فریضے کو آسان بنانے میں ہمارے میزبان کاروان حراگولڈن ٹریول کا اہم کردار ہے - میں چونکہ پاکستان میں نہیں تھا اورحج کے پیکجز اورکمپنیوں کے بارے سنی ہوئی باتوں کے باعث میرے کچھ تحفظات اورخدشات تھے - کاروان حراکا ہمارے ایک عزیزنجم بھائی نے بتایاتھا اس کے باوجود میرے خدشات اوراندیشہ موجود تھے - مدینہ منورہ میں ائیرپورٹ پر منوراحمدصاحب جو گولڈن ٹریول کے سربراہ اورکاروان حراکے لیڈرہیں ان ملاقات ہوئی ، پھرعمران سرورسے اوردیگران کے عملے سے جن میں فیصل , محمداحسان شیخ اورمنورصاحب کے صاحبزادے اویس شامل ہیں - یہ ان کا بزنس ہے لیکن ----- مجھے کہنا پڑے گا یہ اسے حجاج کی خدمت کی طرح کرتے ہیں مدرات اورمیزبانی ، پُرخلوص مسکراہٹ سجائے ہرفرد خدمت میں پیش پیش نظرآیا ان لوگوں نے کسی شکایت ، کسی کمی ، روکاٹ اورپریشانی کا ہمیں سامنا کرنے نہیں دیا توقع سے بڑھ کرحسن انتظام تھا - عمران سرور گولڈن ٹریول کا گولڈن بوائے سونے سا دل رکھنے والا مہربان لڑکا تن من دھن سے سب کی خدمت کرتارہا میٹھا لہجہ اس کو ممتاز اورہردلعزیزبناتاہے - احسان شیخ دھان پان سے لنگرتقیسم کرتے ہوئے آپ کو گھرسا ماحول اورآرام فراہم کرنے پہ معمور- اویس انتظامات میں بھاگ دوڑ کرتا نظرآیا - منورصاحب مسکراہٹ سجائے میزبانی اورخدمت میں ہمارے لیے تسکین کا باعث بنے ساراوقت ہمارے ہمراہ رہے -
 ان احباب کی خدمات اورسروس روپے پیسے سی ناپی تولی نہیں جاسکتی یہ اس سے کہیں بڑھ کرہے - گولڈن ٹریول بلاشبہ فریضہ حج کو آرام دہ اوریادگاربناکے اجرپارہی ہے - اللہ تعالٰی ان تمام احباب کوخیرکثیرعطا فرمائے -




منگل، 18 اگست، 2015

خزانے پہ سانپ

4 تبصرے

آج میرے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے ایک ایسی بات کی جس پر حیرانگی کے ساتھ تفکر کے در بھی وا ہوگئے - وہ ایک کتاب لے کرآئے اور کہا کسی کو چاہیے تو وہ یہ کتاب لے لے ، میں سمجھا  مستعار ہے  پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ نہیں کتاب آپ رکھیں پڑھیں اور مناسب سمجھیں تو کسی اور کو دے دیں - مجھے پوچھنا پڑا  آپ خود کیوں نہیں رکھ لیتے یہ کتاب اپنے پاس آپ کی کُتب کے ذخیرے میں اضافہ ہوگا ، جواب ملا کتابیں پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں  جمع کرکے رکھنے کے لیے نہیں میں نے پڑھ لی تو اب اس کا حق کسی اور پرہے کہ وہ اسے پڑھ سکے -میں سوچنے لگا جو میں نے کتابیں جمع کرکے رکھیں ان پر کس کس کا حق ہوگا اورمیرے جیسے کتنے ہیں جو کتابیں جمع کرکے ان پہ پُھولے نہیں سماتے اور اس علم کی دولت پر سانپ بن کے بیٹھے ہیں اور جانتے تک نہیں کہ علم بانٹنے کے لیے ہے پڑھ بُک شیلف میں سجانے کے لیے نہیں- یہ کون سخی ہیں جو جمع کرکے نہیں رکھتے پڑھا اور آگے بڑھا دیا کتاب کی خوشبو کے یہ سفیر بڑے دل والے ہیں- بزُعم خود علم دوست ،کتابوں کے شیدائی اور قدردان سمجھتے ہوئے ہم حق تلفی کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟ 

منگل، 11 اگست، 2015

ایک عام آدمی

2 تبصرے


ایک عام آدمی پرلکھنا مشکل ترین کام ہے ایسے عام آدمی پرجس نے کبھی خود کو خاص نہ سمجھا اور نا ہی خاص مراعات وسہولیات اپنے لیے چاہیں - پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے گھرکے پہلے بیٹے نے والدہ کے لیے بہت اہم ہوتے ہوئے بھی خود کو نازنخروں اورضدوں سے دور رکھا - والدہ کا معمول گھر کے سامنے واقع مسجد کا جھاڑولگانا اور شام کو وہاں روشنی کے لیے چراغ جلانا تھا توبناء کسے کے کہے نماز پنج وقتہ کو ابتدائی عمر  سے اپنالیا - ایک کسان گھرانے کے اس بیٹے نے تعلیم کا شوق نجانے کہاں سے پایا اور اس کے لیے والد کے ساتھ فصلوں کے دیکھ بھال کے ساتھ تعلیم کو جاری رکھنے کی درخواست بھی کی اور سخت مشقت کے ساتھ تعلیم حاصل کی-  جس گھرانے کے لوگوں کا شہر سے دور کا واسطہ نہیں تھا نا کوئی رشتہ دار شہر میں رہتا تھا وہاں کے فرد کا کراچی جیسے شہر میں آجانا ایک بچپن کے گاؤں کے دوست کی ٹیلرنگ شاپ پہ رات کو سونے کی جگہ پا کے اپنی جدوجہد کا آغاز - کراچی سے بڑے شہر میں گاؤں کا آدمی جسے اللہ پربھروسہ تھا قومی ہوائی ادارے میں ملازمت حاصل کرلیتاہے - زندگی کا محورگھرمسجد اور ملازمت  بنے - صبر ، استقامت ، شکر ، اطاعت اور اخلاق اُن کی ذات کا حصہ تا عمررہے   کہ  مذہب اُن کے لیے صرف عبادات تک ہی محدود نہ تھا - نرم خُو سے شخص کو شریک سفر ملی تو ایسی کے جس کی ذات میں شکرگذاری ،خدمت اور کفایت شعاری بھری ہوئی تھی اس عام سے شخص نے مجازی خدا بن کے حکمرانی نہ کی کھانے میں عیب نہ نکالا گھر میں اُونچی آواز میں بات نہ کی  بیوی نے اس کی نوبت بھی کبھی آنے نہ دی - سب کی ضرورتوں کا بھرپورخیال رکھا کس کو کیا پسند ہے اور اُس کےلیے کیا لینا ہے شاپنگ کرنا اوربھی صرف دوسروں کے لیے اُن کو بڑا پسند رہا کسی کو فرمائش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی سوائے ایک انوکھے لاڈلے بیٹے کے جس کو بازار جاکرچیزیں دیکھ کر مانگنے کی عادت تھی جس سے عاجزرہے "گھرسے بتاکرچلاکروجو چاہیے ملے گا باہر آکر یہ مت کیا کرو" - اولاد سے سختی صرف تعلیم کے معاملے میں برتی وگرنہ شفقت پدری سے مالا مال رکھا - غصہ آتا ہوگا لیکن دبانے اور اس کا اظہار نہ کرنے کا ہُنر آتا تھا - گلہ شکایت کرتے تو بھی اُنھیں خاص مانا جاتا وہ بھی عادت میں شامل نہیں تھا- ملازمت کے دوران بیرون ملک جانے کا اتفاق ہوا تو اپنی محنت اور لگن سے ادارے کی ترقی میں اپنا کرادر ادا کیا جب اکثرساتھیوں نے سنہرے موقع سے فائدہ اُٹھا کر وہیں رہائش اختیار کرکے ملازمت کو خیرباد کہا تولوگوں کے کہنے پربھی نہ رُکے کہ"مجھے جتنے عرصے کے لیے بھیجا گیا تھا وہ ختم ہوا اب یہاں رہنے اور اپنے ادارے کو اس ملک میں رہنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا نہ میں ترک وطن کرسکتاہوں "- اس بیرون ملک قیام کے دوران اپنی پوسٹنگ میں دو عہدوں پرکام کیا مینجر پاکستان سے آ نہ سکا تو اسٹنٹ مینجر اور مینجر کی ذمہ داریاں نبھالیں کسی کو کچھ کہے بناء اور تنخواہ ایک کی پائی وہ بھی کم والی یعنی اسٹنٹ مینجر کی جس کا علم اکاؤنٹنٹ کو تھا اوروہ اُن کی بلڈنگ میں رہائش پذیرتھا  اُس نے ایک بے تکلف محفل کہا آپ عادتیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ ادارے کی بھی بگاڑرہے ہیں کم  تخواہ پہ گذرا کیوں مینجر کی تنخواہ مانگیں تو جواب دیا "میری ضرورت کے لیے کافی ہے جو مجھے مل رہا ہے  وہ رقم ادارے کے کام آرہی ہے تو یہ اچھا ہے "- ماتحتوں پر افسری کا دبدبہ نہ رکھا اُن کے حصے کا کام باخوشی کیاجو شکر گذار ہوکے اس کا ذکرآج بھی سرِ راہ مل جائیں تو کرتے ہیں - تقریبوں میں ، دفتر میں ، گھر پہ ، خاندان میں کہیں بھی خاص مراعات کاتقاضا نہ کرنے والے عام سے انسان کے بارے میں کیا خصوصیت بیان کی جائے جبکہ وہ خود تاعمر مہمان خصوصی نہ بنا ہٹوبچو، باداب باملحاظہ کی صدا سننے کی تمنا نہ کی ، ناک منہ نا چڑھایا ، گھر پہ بادشاہ سلامت  نہ بنے ، تام جھام ، مرغن پکوان ، ہوٹلوں کی لذیذ کھانے ، مہنگے لباس سے گریز کیا ، اب سادہ سے آدمی کے بارے کیا یاد کرکے لکھا جائے کہ 12 اگست اُن کا یوم وفات ہے تو کہاں سے کوئی ایسا واقعہ یاد کیا جائے جہاں وہ خاص الخاص رہے - ایک عام سے آدمی نے نہ ملک وقوم کی خدمت کا دعویٰ کیا ، نہ علمیت ودانشوری سے محفل کو گرمایا - تنقید ی تجزیے نہ کرنے والے ، نہ ملک وقوم ، گھر، خاندان اور نہ اولاد پہ اپنے احسان جتانے والے کب خاص ہوئے ہیں کیونکر ان کو محض فرائض کی ادائیگی پہ خراج تحسین سے نوازا گیا ہے کب ان کو کسی گنتی شمار میں لایاجائے - جنھیں تعلقات کے  کام نکلوانے سے دورکا واسطہ نہ ہو اور اللہ توکل کی بُکل مار کے زندگی بسر کی ہو ان سرآنکھوں پہ بیٹھنے کی تمنا نہ رہی ہو اب ان کے لیے کیا کہا جائے- ہر اولاد کے لیے والدین خاص ہوتے ہیں میرے لیے بھی میرے والدصاحب خاص ہیں لیکن  میری خواہش  اور  دُعا ہے کہ ہمیشہ مسجد میں پہلے صف میں سرجھکا کر بیٹھنے والے میرے عاجز وسادہ دل والد کو  اللہ تعالٰی  اپنے قُرب سے نوازے، ان کو وہاں خاص مقام عطا فرمائے-

جمعہ، 7 اگست، 2015

اتنا توکرسکتا ہوں

11 تبصرے



میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جس کی کئی نسلیں مغربی پنجاب میں آباد چلی آرہی ہیں لہذا مجھے قیامِ پاکستان  کے وقت ہجرت کرکے آنے والوں کے مصائب مشکلات اور قربانیوں کے واقعات اپنے بزرگوں سے سننے کو نہیں ملے مجھے یہ سب کتابوں اور ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوا  میں اس عظیم ہجرت کے ورثے سے محروم ہوں اور اکثرسوچتارہا میرے بڑوں نے اس ملک کے لیےقربانیاں نہیں دیں ان کو یہ مملکتِ خداد گھربیٹھے مل گئی - وطن کی محبت کے بارے میں مشکوک ہوں کیا مجھے اس سبزہلالی پرچم سے ایسا والہانہ لگاو ہے جیسا اس کا حق ہے - میں کس طرح اس ملک کے لیے جذباتی ہوسکتاہوں - مجھے اسکول ، کالج  میں اپنے ہم جماعتوں اور دوستوں سے ان کے بڑوں کی قربانیوں کا سن کر اپنا آپ کمترلگتا رہا- جشن آزادی جوش وخروش سے منایا کیونکہ میرے بچپن کا دور ایک ڈکٹیٹرکا دورتھا لباس قومی تھا، اسکول کا یونیفارم شلوارقمیض تھا ، ٹی وی پرملی نغمے تھے ، جوش وجذبے تھے ، 14 اگست کی تقریبات تھیں ، پرچم کشائی کا اہتمام تھا، ملک سے محبت کا اسلام کے ساتھ بول بالا تھا میں اس سے متاثررہا لیکن  مجھے بعد میں تجزیہ نگاروں ، اخبارات اور دیگرمعتبر ذرائع سے معلوم ہوا وہ آرائیں جرنیل تو ملک سے اسلام سے محبت کا ڈرامہ کرتا رہا اس نے مجھے نئی راہ دکھائی کیا پاکستان سے محبت کا ڈرامہ کیا جاسکتا ہے؟ جیسے کہ پہلے بیان کرچکا ہوں میرے بزرگوں نے پاکستان ہجرت نہیں کی تھی تو مجھے اپنے جذبات اور اس ملک سے محبت کا اظہار با آواز بلند کرتے جھجک رہی ،  اس پر ستم یہ کہ میں کچھ عرصے  سے بیرون ملک مقیم ہو ں چاہے یہ قیام عارضی ہی سہی اور چاہے پاکستان کی چاہ دل کو گرماتی رہے اس کے موسم یاد آتے رہے مجھےان پہ کچھ شک ساہے ، میں نیٹ کے محب وطن کا طعنہ سن کررو نہیں سکتا ،   تو یہ راہ بہتر ہے میں  پاکستان سے محبت کی کسک کو ڈرامے میں ڈھال لوں ، جب کوئی اس کے خلاف بات کرے ، اس پہ تنقید کرے تو سلگتا نہ رہوں، بے چین نہ ہوں بلکہ محبت کا نغمہ الاپ لوں زیرِ لب ہی سہی - کسی کو پاکستان پرلعن طعن کرتے دیکھ کر اس کا حق مان لوں اس پر آنکھیں نم نہ کروں ، دل کو دلاسہ دینا سیکھوں کہ اس کہنے والے کا حق اس ملک پرزیادہ ہے ، میں اس پاک دیس کے کونے کونے سے محبت کروں ،اس کے بارے میں مثبت سوچوں تو کیا کمال ہے ؟ مجھے اس کا روشن رُخ ہی نظرآتا   رہے تو اپنی کم عقلی جانوں کہ مجھے میں حقائق کی سمجھ نہیں ، اس ملک سے اُمیدیں وابستہ کروں تو کیا بڑی بات ہے کون سا اس طرح میرا حق ثابت ہوگا ، پاکستان سے محبت کرنے کا  اختیار مجھے نہیں  میں نےمیرےبڑوں نےمیرےبڑوں نے کیا ہی کیا ہے ملک کے لیے - چودہ اگست پہ  خوشی کا مجھے حق ہی کہاں ہے ، میرے بڑے بزرگ بھی ہجرت کرکے آتے تو میں بھیایک سانس میں دس گالیاں اس ملک کو دیتا ، دوقومی نظریے کو دھڑلے سے غلطی کہتا تو خود کو سچا پاکستانی سمجھتا- میں  ہجرت کرنے والے بزرگوں کی دل سے عزت کرتاہوں ان کے احسان ، ان کی قربانی کی قدر کرتاہوں لیکن اُس دوسری تیسری نسل کا کیا کروں جو مجھے نادم کرتی ہے ، بتاتی ہے کہ میرا اس ملک پہ حق ہی کیا ہے ، میں نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا - تو صرف یہی ہےکہسینے پر پرچم کا بیج لگا لوں سر کو جھکالوں - اپنے دل کی ہوک پہ پرچم کے بیج کو آویزاں کرسکتاہوںمیں انصار  کا بچہ اتنا سا ڈارمہ  تو کرسکتاہوں 

بدھ، 5 اگست، 2015

خون کا عطیہ بہترین تحفہ

1 تبصرے


ہمارے ہاں 80- 90 فیصد افراد اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو ضرورت پڑنے پرخون دیتے ہیں اور 10-20 فیصد پیشہ ورخون دینے والے بیچتے ہیں - خون کا عطیہ دینے والے والوں کی تعداد نا ہونے کے برابرہے اس کا ثبوت حالیہ رپورٹ اور خبرہے کہ کراچی کے بلڈ بینک میں خون کی قلت ہے جس کی وجہ سے مریضوں جن میں  ہیموفیلیا اوربلخصوص تھیلسمیا کے مریض بچوں کو خون فراہم نہیں ہورہا ، تھیلسمیا خون کی کمی کی مورثی بیماری ہے جس میں مبتلا بچوں کو باقاعدگی سے خون لگتاہے اور ان کے والدین کویہ خون خریدنا پڑتاہے کیونکہ وجہ وہی ہے خون کے عطیات دینے کا ہمارے ہاں رجحان ہی نہیں- دنیا بھر خون کی عطیات دینے اور اس سلسلے میں آگہی کا کام ہورہاہے اور لوگ اس کارِ خیر اورانسانی حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک فرض کی طرح خون کےعطیات دیتے ہیں -
ایک خون دینے والے فرد سے تین مریضوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے جو اس میں شامل چاراجزاء
خون کے سرخ خلیات (packed cells)
پلیٹیلیٹس Platelets
پلازما Plasma
فیکٹرز (factor concentartes) مثلا فیکٹر VIII، فیکٹر IX وغیرہ
مکمل خون کی منتقلی کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اب مریض کو خون کا وہ جُز دیا جاتا ہےجس کی اُسےضرورت ہو۔ بہت کم ہی  مریض کو مکمل خون لگایا جاتا ہے۔
 ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے، ہر تندرست فرد ، ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے۔ جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے ۔ تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آ جاتا ہے ، اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ان کو جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوتی ہے۔ لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے۔
 14جون کو ساری دنیا میں بلڈ ڈونرز یعنی خون کا عطیہ دینے والوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ 1868 میں آسٹریا کے ڈاکٹر کارل لینڈ شٹائنر کے یوم پیدائش کے موقع پر اس دن کا اجراء کیا گیا تھا جنہوں نے خون کو چار گروپوں میں تقسیم کرنے کے صلے میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خون کا عطیہ خود بھی دیں اور اس کارِ خیر کی ترغیب دینے کا سماجی اور انسانی فرض بھی ادا کریں - سب سے بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنے سالگرہ والے دن بہترین تحفہ خون کے عطیے کی صورت میں دیں - اسی طرح اپنی زندگی کے اہم ایام کی تاریخوں پر اس عمل کو دہرائیں ، خون کا عطیہ دینے کے لیے اپنے دوستوں اور دیگراحباب کو اس جانب مائل کریں اور ان کے ساتھ مل کر   خون کے عطیات دیں -
مقامِ فکر یہ ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے بارے میں یہ خبرکہ بلڈ بینک خون کی قلت کا شکار ہیں تو دیگر چھوٹے شہروں کا کیا حال ہوگا جہاں طبی سہولیات کا فقدان بھی ہے  اور دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ خون کی عطیات دینے والے افراد بھی کم آبادی کے باعث کم ہے
سیاستدانوں اور حکمرانوں کے رویوں اور بے حسی کی شکایت کرتے ہم عوام بھی ان کی تلقید کرتے جاتےہیں اپنے فرائض اور سماجی ذمہ داروں کو بُھولتے جارہے ہیں - خودغرضی اور نفسانفسی میں دوسروں کے لیے ہمدردی کے جذبے سے محروم ، درختوں کی کمی ، اخلاقی اقدارکے زوال سے دوچار  ، مثبت رویوں  کی کمی اورسماجی ذمہ داریوں سے غافل انفرادی اور اجتماعی طورپر دیوالیہ اور بےحس تو نہیں ہورہے؟ 

ہفتہ، 25 جولائی، 2015

مسئلہ کیا ہے

1 تبصرے


مسئلہ کیا ہے

قومی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے امراض کی وجہ بھی پینے کا آلودہ پانی ہے۔قومی تحقیقاتی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پینے کا 82 فیصد پانی انسانی صحت کیلئے غیر محفوظ ہے۔ واٹر ریسرچ کونسل کی رپورٹ کی مطابق ملک کے 23 بڑے شہروں میں پینے کے پانی میں بیکٹیریا، آرسینک، مٹی اور فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے۔ پاکستان میڈیکل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی وجہ پینے کا پانی ہے، جس کے باعث سالانہ 11 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 
میں جب یہ پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں یہ کہاں کی بات ہورہی ہے ؟ میرا بنیادی مسئلہ تو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر کچھ اور ہی بیان ہورہا ہے جو کہ کسی ماڈل گرل کی رہائی ہے اور کسی مولوی کی کچھائی ہے - میں ان پراتنا کچھ پڑھ ،سن چکا ہوں کے مجھے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوچکا ہے - مجھےمعلومات کے ساتھ اس بارے میں تشویش لاحق ہے لہذا پینے کا صاف پانی میسر ہے یا نہیں اس پر غورکرنا ضروری نہیں کیونکہاس کا سیدھا حل ہے صاف پانی میسر نہیں تو کوک پیپسی پی لیں اس میں اتنا پریشان ہونے اور فکرمند ہونے والی کیا بات ہے -مجھے اپنے سماجی حقوق کا احساس ہے ذمہ داریاں مجھ سے بے ضرر شہری کی بھلا کیا ہوسکتی ہیں - ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی اس میں اضافے کا ذمہ دار میں کیسے ہوسکتا ہوں؟ میں تو اپنے گھرکا کچرا باہرپھینک دیتا ہوں جس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ کچراچننے والے بچوں کا روزگار لگا رہتا ہے دوسرا کتے اور بلی اور مکھیاں رزق حاصل کرلیتے ہیں - جو لوگ آلودہ پانی پی رہے وہ  بھی پریشان نہ ہوں بیماری کی صورت میں ڈاکٹر ہیں ان سے رجوع کریں -

ہفتہ، 4 جولائی، 2015

پہلا روزہ

13 تبصرے

ہمارے بچپن کے دور میں بچے بڑوں کے ساتھ اپنے شوق سے نمازپڑھنے چلے جاتے تھے ، تروایح مکمل نہ بھی پڑھیں لیکن مسجد باقاعدہ جاتے پوراماہِ رمضان - موضوعات اس ماہ میں کھانے پینے کی اشیاء نہیں بلکہ اپنے دوستوں میں روزوں کی تعداد ہوا کرتی-روزہ رکھنا ایک عزاز سمجھا جاتا اور دوستوں اور محلے میں معتبر ہوجانے کی علامت اس کو شمار کیا جاتا لہذا روزے رکھنے کا شوق نہایت کم عمری سے  پروان چڑھتا اوربڑھتاگھرمیں بڑے بہن بھائیوں کو دیکھ کر بھی اس صف میں شامل ہونے کی کوشش ہوتی- افطار میں ایک غیرمعمولی کشش محسوس ہوتی اور ماہ رمضان رونقوں کا مہینہ ہوتا ہرجانب خوب چہل پہل ہوتی -مجھے اپنے پہلے روزے کے نام پرفقط ایک فوٹوگراف یادہے جو اس موقع پہ قریبی اسٹوڈیو سے بنوائی گئی تھی جس میں میرے ساتھ میرا چھوٹاسابھائی ہے- مجھےاس تحریرکے لیے محمداسد کے حکم پرلکھنے کو کچھ یاد نہیں تھا اپنے پہلے روزےکے حوالے سے کچھ بچپن کے رمضان یاد تھے لیکن پہلا روزہ نہیں کچھ واقعات خودسے وابستہ والدہ سے کئی بارسنے جن میں ایک یہ ہے کہ جب مجھ سے کوئی پوچھتا کہ "روزہ رکھاہے" تو میں جواب دیتا"جی رکھا ہے ڈبے میں شام کو کھولوں گا" - سحری کے وقت کبھی بیدار نہیں ہواتھا لہذا صرف افطار دیکھا تھا اور روزہ رکھنا کھانے کی اشیاء کو ڈبے میں رکھ کرشام کو کھولنا سمجھتاتھا - پھر وقت کے ساتھ یہ تو سمجھ آگئی کہ روزہ ڈبے میں نہیں رکھا جاتا تو اصرارشروع کہ روزہ رکھنا ہے اس کی وجہ بیان کرچکا ہوں - مجھے آج اپنی بڑی بہن سے اپنے پہلے روزے کا پوچھنا پڑا تفصیل سے اس تحریرکے لیے - پہلا روزہ سات سال کیعمرمیں جمعۃ المبارک کا رکھا چونکہ مجھ بھوک برداشت کرنے کی اضافی صلاحیت ہے لہذا والدہ کو اس کا یقین تھا کہ روزہ توڑوں گا نہیں اور بھوک کے باعث کھانے کا تقاضا بھی نہیں کروں گا - سحری پہلی باردیکھی تھی لہذا رات کے اس پہر جو کھلایا کھالیا جو ہدایات دی گئی ان پہ سرہلادیا-دن بھر میری والدہ کو صرف ایک خطرہ لاحق تھا مجھ سے وہ تھا ٹافیاں کھانے کا چسکہ جو ہم ایک ساتھ تین چار منہ میں ڈال لیتے تھے اور میری والدہ اس حرکت سے انتہائی عاجزتھیں لہذا بڑے بہن بھائیوں کو ہمیں  سارادن بہلانے اور ٹافیوں سے دوررکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی- شام کو ہماری فرمائش پہ روایتی لباس کی بجائے والد صاحب کا ولایت سے بھیجا بدیسی لباس پہنایا گیا ہماری خواہش تو چھوٹے بھائی والی نیکربنیان پہننے کی تھی لیکن یاد دلاگیا کہ آپ کی روزہ کشائی ہے لہذا کچھ تو خیال رکھاجائے سمیت شرم وحیا یوں بھی نیکرکا سائز دیکھ کرہم نے اسے چھوٹے بھائی کے لیے ہی مناسب جانا- سُرمہ دُنبالے دار لگایاگیا خُوب جماکے بال سنوارے گئے تو ہم نے ٹوپی پہننے سے بھی انکار کردیا - ہار پھول پہنا کے چھوٹے ماموں کے ساتھ فوٹواسٹوڈیو یادگاری تصویربنوانے چھوٹے بھائی کو بھی ایک ہارپہنا کے ساتھ روانہ کیا گیا- مہمان نہیں بُلوائے گئے کیونکہ افطار پارٹی کا رواج نہیں تھا - افطار سے قبل مٹھائی اور سامان افطار محلے کے گھروں میں ہم اپنے بڑے بہن بھائیوں کے ہمراہ بانٹنے گئے اور کچھ نقد رقم وصول کی انعام کے طورپرمحلے کے گھروں سے -افطار میں ٹافیاں ہمارے اصرارکے باوجود نہیں رکھی گئیں لیکن مٹھائی خاص طورپرہماری پسندکی منگوائی گئی جو کہ اس افطار کا اہتمام تھی - اس کے بعد روزے معمول کے مطابق  رکھنے شروع کردیے اسی سال سے - جب تک میری والدہ حیات رہیں ماہِ رمضان میں میری کم ہوتی خوارک کے باعث جو اب تک ویسے ہی ہے انھیں یہ  فکرلاحق ہوجاتی یہ لڑکا نہیں بچے گا ہرروز ٹٹول کردیکھاکرتی - بچپن ماؤں کے ساتھ ہوتاہے لیکن جن کی مائیں  دنیا سے رُخصت ہوجاتی ہیں وہ اُسی روز بوڑھے ہوجاتے ہیں  چاہیے وہ عمرکے  کسی بھی حصے  میں ہوں کیونکہ پھرکوئی اُن کے بچپن کے واقعات نہیں دہراتا -
یہ گھمن صاحب کا شروع کیا سلسلہ ہے جس میں محمداسداسلم نے مجھے شامل ہونے کو کہا میں اس فرمائشی پروگرام کو مزید آگے بڑھاتاہوں ہوں اور 
فلک شیر
نیرنگ خیال
ابوشامل
حسان خان
سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے پہلے روزے کا احوال تحریرکریں

ہفتہ، 27 جون، 2015

اعتراف

7 تبصرے
اعتراف مشکل ہوتا ہےاور اس کا اظہار اس سے بھی کٹھن لیکن آج بہت سی آسانیوں ، سہولیات اور جون کے اس گرم دن میں اپنے خنک کمرے میں بیٹھ کر مجھے یہ مشکل کام کرنا پڑا اپنے ماتھے سے ندامت کا پسینہ خشک کرتے ہوئے جو نجانے کیسے پھوٹ پڑا - پاکستان سے باہر بیٹھ کر اس کے لیے فکرمند ہوتاہوں ، وہاں لوڈ شیڈنگ سے ساری رات بے حال اور بے چین ہوکر صبح کام پرجانے والے اپنے دوستوں کی تکلیف سے بے نیاز صحت ، صفائی کے جیسی بنیادی سہولیات کے فقدان سے پریشان اپنے محلے میں کچرے کے ڈھیروں سے اُٹھتے تعفن کو برداشت کرنے والے پاکستان میں رہنے والوں کو میں ماحولیاتی آلودگی پر لیکچردے سکتا ہوں ، شجرکاری کی ترغیب دیتا ہوں ، ان کو بے عملی اور غفلت پر سرزنش کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتا آج انھیں  کن کن مصائب سے گذرنا ہے ، بس میں لٹک کر سفرکرکے گھرجانا ہے یا ٹریفک جام میں طویل انتظارکی کوفت اورشورمیں اپنی ہمت کو  کس طرح قائم رکھنا ہے میں اس کا اندازہ نہیں کرسکتا - ان کے روزمرہ مصائب اور تکالیف کاکیونکر احساس کرسکتا ہوں اپنے لیے فرار کی راہ چُن کر کس منہ سے خود کو محب وطن پاکستانی کہوں لیکن میری منافت مجھے شہہ دیتی میں ایک ترقی یافتہ ملک میں بیٹھ کر کسی سیاستدان کی طرح بیانات دے کر حقِ وطن ادا کرلیتاہوں -مجھے صبر اور استقامت کا درس دےکر اپنے اخلاص کا سکہ جمانا آگیا ہے - اپنے ملک میں رہ کراُلجھتے ، روتے ، حالات سے لڑتے اپنے دوستوں پرمجھے یہ ثابت کرنا ضروری ہوجاتا ہے ان مشکلات میں ان کے ساتھ ہوں یہ الگ بات ہے کہ یہ ساتھ میں ائیرکڈیشن میں  بیٹھ کر ان دھوپ میں جلتے ہوئے بجلی نہ ہونے  والوں کا اسی انداز میں دے سکتاہوں-میں اعتراف کرسکتاہوں لیکن معاف کیجیئے گا پاکستان آکر آپ کے ساتھ ان کٹھن حالات میں رہ نہیں سکتا -

جمعرات، 11 جون، 2015

بابا اشفاق احمد اور میں

10 تبصرے

کچھ مصنف ایسے ہوتے ہیں ان کی تحریر کو پہلی بار پڑھتے ہی   قاری کا ان سے قلبی رشتہ بن جاتا ہے - ایساہی قلبی رشتہ میرا بابا(اشفاق احمد) سےان کا افسانہ گڈریا پڑھتے ہی بن گیا جس وقت میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ان کے افسانوں کا مجموعہ اُجلے پھول مجھے اسکول کے رستے میں قائم کتابوں کی دوکان دانش کدہ جو کہ راشد منہاس روڈپرہے وہاں سے ملا چونکہ اُس عمرمیں ماہانہ جیب خرچ ملنے لگا تھا لہذا اُس میں یہ کتاب باآسانی خریدلیکیوں خریدی معلوم نہیں شاید اُس کے سرِورق پربنے سفید اور پیلے پھول اچھے لگے یا مصنف کا نام مانوس تھا ، یا ٹی وی کے طویل دوارنیے کے ڈراموں کے حوالے سے شاید بابا کا ایک ڈرامہ ننگے پاؤں کچھ کچھ سمجھ میں آیا تھا یا توتا کہانی کے کسی کھیل نے متاثرکیا تھا، ماما سیمی کے مکالمے ذہن میں تھےیا کچھ اور یقین سے نہیں کہہ سکتا - گھر میں نسیم حجازی اور ابن صفی کی کتابیں موجود تھی لیکن افسانوی ادب کی کوئی کتاب نہیں تھی - اُجلے پھول میں پہلی ہی کہانی گڈریا پڑھی اور باربار پڑھی اور کافی عرصے تک اُس میں سے کچھ اور نہیں پڑھا - اس کے بعدبابا کے ڈرامے دیکھنے کا شوق ہوا اس سے قبل جو ڈرامے دیکھے تھے بس یونہی دیکھے تھے اُس وقت کوئی چوائس نہیں تھی اور تمام گھروالے ٹی وی ڈرامے دیکھا کرتے تھے - بابا کے جملے بڑے بھاتے تھے اُن کے کردار خود سے ہم کلام ہوتے تھے - وقت کے ساتھ بابا کی ذات میرے لیے گھر والوں سی ہوگئی اُن کا لکھا مجھے اپنے ارگرد رچا بسا نظرآیا - وہ دور میری خاموشی ،  تنہائی اور اُداسی  کا دورتھا اسکول میں دوست نہیں تھے جو ہم جماعت تھے ان کی باتوں میں دلچسپی نہیں تھی لہذا بابا کی ایک بعد ایک کتاب پڑھتا گیا - میٹرک کے بعد بانو آپا کو پڑھا تو بابا سے قربت اور محبت مزید بڑھی اب ان کی کتابیں پڑھتا ان کے گھر جا نکلتا داستان سرائے کے کھلے دروازے سے ہوتا اندر جا پہنچتا یہاں ٹی وی دیکھتے اثیربھائی ( باباکے چھوٹےصاحبزادے) ملتے آگے انیس اور انیق بھائی گفتگو کرتے نظرآتے ان کے ساتھ ممتاز مفتی تکیے سے ٹیک لگائے نیم دارز ہوتے- بانوآپا کھانے کا اہتمام کرنے میں مصروف ہوتیں ، میں بابا کو کھوجتا ان کے کمرے میں جا نکلتا جہاں ہوئے مطالعے میں مصروف ہوتے میں گھر کے ایک فرد کی طرح بے تکلف وہاں ایک کرسی پہ بیٹھ کراُن کی کتاب پڑھتا- یہ اکثرہوا اب بھی یہی محسوس ہوتا ہے میں نے بابا کی ہرکتاب ان کی یا بانوآپا کی موجودگی کومحسوس کرکے پڑھی ہے -مجھے بابا کی کتابیں نجانے کہاں کہاں سے ملتی رہیں لیاقت آباد کے ایک بُک اسٹال سے 1995 میں اُن کی پنجابی نظموں کی کتاب مل جاتی جو کہ نایاب ہے -کراچی میں فرئیرہال کے کُتب بازار میں بابا کے جاری کردہ رسالے داستان گو کا جنوری 1960 کا ایڈیشن پُرانی کتابوں میں مل جاتاہے تو لاہورمیں سنگ میل کے دفتر سے توتاکہانی یہ کہہ کردی جاتی یہ ہمارے پاس آخری کاپی تھی اور ساتھ ہی سیون اَپ کی بوتل پلائی جاتی تو میں جان لیتا ہوں میرا رشتہ بابا سے خاص    ہے اور اسے سب محسوس کرلیتے ہیں ویسے ہی جیسے میرے والد نے 7ستمبر 2004 میںپاکستان سے فون کرکے بتایا تھا " اوجہڑا بابا سی نا اشفاق احمد او آج فوت ہوگیا اے" مجھے اطلاع میرے والد نے فون پہ یوں دی جیسے کسی عزیزکی وفات کی خبرہو ویسے ہی جیسے انھوں نے فون پرمیری والدہ کے انتقال کی خبردی تھی - میں اپنے والدین کے سفرآخرت کے مراحل میں شریک نہیں ہوسکا ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی وہ اُن کی تدفین کا مرحلہ نہیں دیکھا لہذا مجھے وہ ہمیشہ اسی دنیا میں محسو س ہوتے ہیں میں کبھی یہ نہیں محسوس کرتا اُن کا انتقال ہوگیا ہے- میں یہاں ہوں تو لگتا ہے وہ پاکستان میں ہیں اور وہاں جاکے محسوس ہوتے وہ امریکہ گئے ہیں - یہی احساسات میرے بابا کے لیے ہیں  ہمیشہ ایسا ہی لگتا ہے وہ اسی دنیا میں موجود ہیں -ان کی کتابیں پڑھوں تو وہ مسکراتے ہوئے ساتھ آبیٹھتے ہیں - دلچسپ بات یہ ہے اُن کی کتابیں میں اُردومیں پڑھتا ہوں لیکن وہ گفتگو مجھ سے پنجابی میں کرتے ہیں میرے والدین کی طرح - "کاہنوں جان کھپانا ایں نکیاں نکیاں گلاں توں اللہ خیرکرے دا"یہ کہہ کرمسکراتے ہوئے میرے پاس سے کوئی کتاب اُٹھا کردیکھنے لگتے ہیں - 

منگل، 9 جون، 2015

ایک خبرہی توہے

2 تبصرے


جب کسی بچے کی علاج نہ ہونے کے سبب انتقال کی خبرپڑھنے سننے کو ملتی ہے ذرا سا ضمیرسراُٹھاتاہے پھرہم حکومت کوکوسنے دےکراسے خاموش کرادیتے ہیں - حالانکہ ان معصوموں کو جنھیں علاج کی سہولت نہیں مل پاتی ان کی موت کے ذمہ دار ہم بھی ہوتے ہیں ہم جن کو ان کی مدد کی توفیق نہیں -ہمارے اردگرد بے بس اورلاچار افراد سرجھکائے نم آنکھوں سے زندہ لاشیں بنے پھرتے ہیں ، دفاترمیں ، مساجد میں اورہمارے گھریلو ملازمین میں جو ہم سے کبھی اپنے بچوں کی بیماری کا ذکرکرتے ہیں تو ہم پیزا آرڈرکرتے ہوئے ، ٹی وی پردلچسپ پروگرام دیکھتے ، اپنی وش لسٹ میں نئے سیل فون کا اضافہ کرتے ہوئے ان کی بات پر اول تو توجہ ہی نہیں دیتے اور جوذرا سن لیں تو ان کی بہانے بازی سمجھتے ہیں- فی زمانہ ہمارے اپنے بڑے مسائل ہیں جن میں جدید انٹرٹیمنٹ آلات کا حصول اور رات کے لیے فاسٹ فوڈ کا انتخاب سرفہرست ہیں-
پاکستان میں بچوں کو علاج کی مفت سہولیات، سرکاری ہسپتالوں اور پرائیوٹ پریکٹس کرنے والے معالجوں کا حال جاننے کے لئے کسی اعداد شمار کی ضرورت نہیں یہ خبریں بن کے سامنے آجاتے ہیں بے کسوں اور ناداروں کا حال بیان کرنے - ہم حکومت سے کس قسم کی توقع رکھتے ہیں جب ہم خود کسی کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں اور ایک معیارِ زندگی اور رویہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں تو دوسرا دیگر اپنے سے کم آمدنی والے لوگوں کے لیے - ہم تعلقات اور مفاد ات میں گھرے مجبور لوگ ہیں اور ایسے ہی مجبور سرکار اور سرکارے نمائندے ، سیاست دان اور ارباب اختیار- یقین جانیں وہ بھی ہماری طرح اپنی ذات کے حصارمیںگرفتار ہیں ان کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں وہ کسی کی دادرسی نہیں کرسکتے فرق صرف اتنا ہے ان کا رویہ واضح ہوجاتاہے اور ہماری منافقت اور بے حسی پوشیدہ رہتی ہے - ہمارے لیے ہرموت ایک خبرسے بڑھ کرنہیں ہوتیہم آسائشات ، خواہشات اور خودنمائی کی دوڑکے گھوڑے ہیں سرپٹ بھاگتے جنھیں پیچھے رہ جانے، گرجانے والے، زخمی ہونے والوں سے کوئی سروکارنہیں ہوتا ہم رُکیں گے تب جب خود گریں گے -ہمیں تو مذہب ہمدردی ، بھائی چارے اور شفقت اور دوسروں کے درد کا مدوا کرنے کی تلقین کرتا ہے تو یہ کسی اور کے لیے ہوتاہماری ذات پہ اس کا اطلاق نہیں ہوتا- میں دیکھ کر  حیران ہوتا ہوں امریکی معاشرے میں جم اوکانر جیسے افراد کو    جواسکول  میتھ کا ٹیچر ہے اور بچوں کے ہسپتال میں بطور والنتئیر کام کرتا ہے اور ناصرف بلامعافاضہ خدمات سرانجام دیتا ہے بلکہ سب سے زیادہ یہاں خون کا عطیہ بھی دیتا لیکن اس کی خبر اس کے طالب علموں اور اسکول کے عملے کو نہیں ہوتی جب اچانک  اس ہسپتال اس کا ایک شاگرد جاتاہے تو وہاں اپنے اسکول کا بتانے پر لوگ اسسے جم اوکانرکا پوچھتے ہیں "تم اُسے جانتے ہوگے" طالب حیران ہوتا ہے یہاں لوگ کیونکر اُس کے میتھ کے سخت گیر اُستاد کوجانتے ہیں جم اسکول میں اُصول ضوابط والا سخت اُستاد ہے جو تعلیم میں "فن" کو نہیں مانتا اور اپنے طالب علموں کو سختی سے توجہ علم کی جانب مرکوز رکھنے کیتلقین کرنے والا جم سونے کا دل رکھتاہے اور اپنا وقت معصوم بچوں کے لیے وقف کرتا ہے - یہ ترقی یافتہ معاشرے کا فرد ہے جس سے ہم بے انتہا متاثرہیں جن کی زبان ، ٹیکنالوجی ، فیشن ، موسیقی ، آرٹ اور اندازِ زیست ہمں بھاتا ہے ہم اس معاشرے میں ڈانلڈ ٹرمپ کی دولت کوتو دیکھتے ہیں لیکن جم اوکانر سے لوگ ہماری توجہ نہیں پاتے کیونکہ وہ انسانی ہمدردی کا بے شمار جذبہ تو رکھتے ہیں بے تحاشا دولت نہیں - ہمیں انسان سے اشرف المخلوقات بنانے اور اپنی ذات کے حصار سے باہر نکالنے والی کوئی صداسنائی نہیں دیتی خواہ وہ پانچ وقت فلاح کا بلوا ہو یاکسی معصوم کی علاج نہ ہونے      کے سبب موت کی خبر-

اتوار، 31 مئی، 2015

زہرپیالے

3 تبصرے



وقت کے ساتھ تیز رفتاری سے غذائیں اورمشروبات بھی نئی شکلوں میں سامنے آنے اور مقبول ہونے لگے اب ہم فرج میں سے کوک نکال کرخودبھی پیتے ہیں اور مہمانوں کی تواضع بھی کرتے ہیں-  یہ سوڈا مشروبات بچوں کو بہت بھاتے ہیں اور وہ ان کو دیکھ کرمچلنے لگتے ہیں - ایک وقت تھاان مشروبات کی اتنی مانگ نہیں تھی ہمارے گھروں میں ان کا آنا کبھی کبھار ہوتا تھا بات مہینوں پہ جاتی تھی - ایک کوک کی بوتل آتی تھی جس میںحصے لگائے جاتے اور چند گھونٹ بچوں کے حصے میں آتے - مہمانوں کو اکثر سکنجبین ، ٹھنڈا پانی، روح افزاء اور گھریلو مشروبات ،  گھر پہ تیارکردہ بادامکا شربت یا پھلوں کا رس پیش کیا جاتا - خاطرتواضع کے لیے بہت زیادہ تکلفات اور بازار کی اشیاء کا اہتمام نہیں ہوتا تھا - موسمی پھل لے کر دوسروں کےہاں جانا اور انھیں اپنے گھر میں بھی پیش کیاجاتا- 
 سادہ غذائیں اور مشروبات کے استعمال کی جاتی جو کم خرچ بھی اور فائدہ مند بھی تھیں - صعنتی ترقی اور تیزرفتاری نےہمیں  جھٹ پٹ اشیاء سے روشناس کرایاٹی وی اور اخباری اشتہارات نے ان کی اشتہا کو بڑھاوا دیا اور ہم نے اپنے گھروں میں سوڈا مشروبات کے لانا زیادہ شروع کردیا بازار کی تیار کردہ اشیاء کےمعیار اور حفضان صحت کے اُصولوں کو نظر انداز کیا - اب ہم سوڈا مشروبات کا استعمال پانی کے طرح کرتے ہیں مہمانوں کوگلاس بھر بھر کے پیش کرتے ہیں ، ہمارے بچے بھی اسے کثرت سے پیتے ہیں ، کئی گھرانوں میں تو شیرخوار بچوں کو ان کی دودھ کی بوتل میں بھی یہ مشروبات پلادینا کو ئی بڑی بات نہیںاب بیماریاں  عام ہیں بچوں سے لے کر بڑے تک ذرا سے موسم کی تبدیلی کو برداشت نہیں کرپاتے اورمعدافتی نظام کمزور ہونے کے باعث جلد علیل ہوجاتے ہیںجس کا ایک بڑا سبب ہمارے استعمال میں کثرت سےہونے والی غیرمعیاری غذائیں اور سوڈا مشروبات ہیں -سوڈا مشروبات کے  چند نقصانات پر ہی ہم نظر ڈال لیتے ہیں
1-کاربن ڈائی آکسائیڈقدرت اس زہریلی گیس کو جو خون کے ایک فضلے کی مانند ہے سانس کے ذریعے پھپھڑوں سے باہر نکالتی ہے لیکن پیپسی اور کوکاکولا میں پانی
میں اس گیس کو گزار کر جذب کیا جاتا ہے جسے ہم منہ کے ذریعے اپنے معدے میں اتار دیتے ہیں اس گیس کو پانی میں گزارنے کے فعل سے کاربالک بنتا ہے-تیزابیت ہڈیوں اور دانتوں کو گھول کر رکھ دیتی ہےکھانے کے دوران ان مشروبات کے استعمال سے ہاضمے کے مددگار کیمیائی مادے تحلیل ہوکرمعدے پر مزید بوجھ ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے معدہ جلد ہی جواب دے جاتا ہےانہی وجوہات کی بنا پر معدے میں کیمیکل  اور دیگر زہریلے مادے بنتے ہیںجو انتڑیوں میں جذب ہوکر جسم کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیتے ہیں۔
2-فاسفورک ایسڈاس کا تیزابی مادہ ہمارے جسم کی ہڈیوں اور دانتوں سے کیلشیم کے مادے کا اخراج کرتا ہے۔ مسلسل استعمال سے ہڈیوں کی شکست وریخت ہونےکی وجہ سے ہڈیوں کا درد‘ کمر کا درد اور بعض اوقات معمولی چوٹ سے ہڈیوں کا ٹوٹ جانا عام علامت ہے۔ 
3-کیفین یہ اعصابی نظام کو تحریک دینے والی نشہ آور دوا ہے جس کے استعمال سے آدمی وقتی طور پر بیدار‘ تازہ دم اور خوشی محسوس کرسکتا ہےپانچ چھ گھنٹے میں اس کا اثر ختم ہونے پر کمزوری‘ سستی‘ اضمحال اور بوریت محسوس کرتا ہے۔ کیفین کے زیادہ استعمال سے ہیجان‘ بے چینی‘ رعشہدل کی دھڑکن کا بڑھ جانا-
4سوڈیم بینزوئیٹ یہ مضر کیمیائی مادہ مشروبات کو سڑنے سے روکتا ہے لیکن اس کاکثرت سے استعمال ہائی بلڈپریشر کا باعث بنتا ہے۔
5- شوگرجو ان مشروبات میں شامل ہوتی ہے  کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ انسولین کی مقدار خون میں بڑھا دیتی ہےجس سے گروتھ ہارمونز یعنی وہ ہارمونز جو جسم کی نشوونما اور بڑھوتی کا ذمہ دار ہوتا ہے کی پیداوار رک جاتی ہے۔ جس سے دفاعی نظامکمزور ہو جاتا ہے۔ انسولین جسم میں چکنائی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھادیتی ہے جو وزن میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔شوگر دماغی نظامکو کمزور کرتی ہے جس سے تمام بیماریوں کو حملہ آور ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ نمکیات کے توازن میں خلل پیدا کرتی ہے۔دانتوں کو خراب اور کمزور کرتی ہے۔ بال جلد سفید ہونا، کولیسٹرول میں اضافہ سر درد کا باعث بنتی ہے۔ جب آپ چینی کا زیادہ استعمالکرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وٹامن سی کو خون سفید خلیوں میں جانے سے روک رہا ہے اور اس طرح سے آپخود اپنے دفاعی نظام کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔
 ان مشروبات کے پیالوں کو پیتے ہوئےان کے چند نقصانات کا ہی سوچ لیں تو نہ خود پیں نہ اپنے بچوں اوردیگر احبابکوبھی پلانے سے گریزکریں- سقراط نے سچ بول کر زہر پیالہ پیا تھا اور ہم ہنستے ہنستے سوڈا مشروبات کی شکل  میں ست رفتار زہر خود بھی پی رہے ہیں اور مہمانوں کو بھیاہتمام سے پیش کررہے ہیں -

ہفتہ، 30 مئی، 2015

اُردوسوشل میڈیا سمٹ کراچی فقط حوصلہ افزائی

6 تبصرے

فروری کے ابتدائی ہفتے میں مجھے کراچی میں جب عامرملک بھائی نے اُردوسوشل میڈیا سمٹ 2015 کا  بتایا تو زبان اُردو 
کے حوالے سے ہونے والے کراچی کے اجلاس پر دل نے لبیک کہا،  یہ ہماری قومی  زبان کے فروغ کے لیے
 اور بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے شہر کے لیے ایک خوش آئند بات تھی یہ میرے شہر کی ساکھ اور اس کی
رونقوں کی بحالی میں کرادار ادا کرنے کا منصوبہ تھا - میں نے عامر ملک ، محمد اسد اور فہد کہیر کی دمکتی آنکھوں میں اُس
بے لوث جذبے کو  واضح   طورپر محسوس   کیا   اور ان کے اخلاص کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا- اس کے انقعاد میں ابھی 
چند ماہ باقی اور کراچی میں میرا قیام مختصر یہ سوچ کچھ ملال لےکر آئی کہ میں اس میں شریک نہیں ہو پاؤں گا ابھی اسی
خیال میں تھا کہ  عامر بھائی نے ہمیں سوشل میڈیا سمٹ کراچیکی بیرون ملک نمائندگی کی پیش کش یوں ہم دور رہ کر بھی
اس میں شامل ہوسکتے تھے یہ اعزازی نمائندگی تھی اور ہمارے مزے بناء کچھ کیے ہمارا نام اس سمٹ کے ساتھ جُڑ گیا -
میرا خیال تھا یہ دیگر بلاگر اجلاسوں کی طرح سوشل میڈیا کو شامل کرکے کوئی سوپچاس افراد کا اجلاس ہوگا کیونکہ یہ
ابتداء تھی اور اس کی بہت بڑے پیمانے پر توقع اور وہ بھی ہمارے نوجوان دوستوں سے نہیں تھی --- لیکن جب 
ان لوگوں کی محنت دیکھی اور کراچی پریس کلب میں ابتدائی پریس کانفرنس نے یقین دلادیا یہ ایک تاریخی سمٹ ہوگا
پریس کانفرنس میں کاشف نصیر ،عمار ابن ضیاء ، شعیب صفدر گھمن ، فہیم اسلم اور وقار اعظم جیسے بلاگر کو دیکھ کر
واضح طورپر ان کے کردکھانے والا عزم اور زبانِ اُردو سے ان کی محبت اور سوشل میڈیا سمٹ سے ان دلی وابستگی
نے ہمیں بھی ہزاروں میل دور بیٹھ کر اس میں خود کو مکمل شریک محسوس کرادیا-
اب معاملات آگے بڑھ رہے تھے اور سوشل میڈیا پر خبروں سے دیگر شہروں سے شرکت کے لیے آنے والے 
معروف بلاگرز کی اطلاع مل رہی تھی- ساتھ ہی مشہورشخصیات کا اس سمٹ میں بطور مہمان اسپیکر مدعوہونا
بھی اس کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لیے کم نہیں تھا دوسری جانب جامعہ کراچی کا اس کے ساتھ اشتراک گویا
ایک اور اعزاز تھا - شعبہء ابلاغ عامہ کے طلباء بلخصوص اور جامعہ کے دیگر شعبوں سے جن میں ویژویل اسڈیز 
کے طلباء کا اس سمٹ میں آنا اہم تھا کہ نئی نسل میں اپنی قومی زبان کی اہمیت اور اس کے فروغ اور سوشل میڈیا
میں اس کے کرادر کو ان کے سامنے پیش کرنا منفعت بخش تھا کے وہ لوگ اس سے خود بھی فائدہ حاصل کریں 
اور اُردو کی ترویج میں اپنا کردار کے ساتھ اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی اس جانب راغب کریں گے-
لائیوں سٹرمنگ کا بے صبری سے انتظار تھا اور پاکستان کے معیاری وقت سے فرق کے باعث ہمارے پاس رات
کا پچھلا پہر شروع ہوگیا لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہم سے دس بجے سوجانے والے کی بے صبر  نظریں
لیپ ٹاپ پرجمی تھی کچھ اسٹیٹس آرہے تھے تصاویر کے ساتھ پھر گھمن صاحب کا بشاش چہرہ نظرآیا ، وقار اعظم 
اور فہیم اسلم مہمانوں کے استقبال کے لیے دمکتے نظرآئے تصاویر میں - لائیوسٹمرمنگ سے آنے والے مہمان
بیرون شہروں سے شرکت کرنے والے بلاگر اور طلباء واساتذہ نظر آرہے تھے -
انتظامیہ کے ارکین کے محنت اسٹیج سے لے کرہال تک دکھائی دے رہی تھی یہ کام نوجوانوں کا نہیں بلکہ ماہرین
کا معلوم ہورہا تھا - عمار ضیاء  پروگرام کےمیزبان ان کی خوبصورتی کے ساتھ بہترین اندازاور لب ولہجہ بھلا کسے
نہیں بھایا ہوگا -مشہور ومعروف ہستیاں اور ان کے خطابات نے یہ ثابت کردیا یہ ایک غیرمعمولی نوعیت کا اور
کامیاب سمٹ ہے جو ایک نئے باب رقم کررہاہے -ایلن کیسلر سے محمد اسد کی گفتگو نے ہمیں سرشار کیاایک غیر ملکی
اور وہ بھی امریکی کو اُردزبان میں بات کرتے اس کی محبت کا دم بھرتے دیکھنا اور ان کا اس سمٹ میں شامل ہونا بڑی
بات تھی - ان کی تصاویر ہم نے صبح جاب پہ اپنے امریکی ساتھیوں کو معلومات کے ساتھ دکھائیں اور اولین مبارک باد
بھی انہی  سے پائی- بلاشبہ ہم سب میں ،آپ ، اس میں شرکت کرنے والے مہمان اور انتظامیہ سب مبارک باد کے 
مستحق ہیں -یہ ہمار اجلاس تھا ایک کامیاب اور منظم اجلاس اس میں یقنی طور پر کچھ کمی اور کچھ خامیاں بھی رہ گئی 
ہوں گی تو میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کروں گا یہ سمٹ جنت میں منعقد نہیں ہوئی تھی اور دنیاوی امور 
میں اتناتو ہوسکتا ہی ہے - ہماری توقعات ، تبصرے ، تنقید ، شرکت ایک طرف اور ہمارے ان نوجوانوں کی کوششیں
 اورانتھک محنت دوسری جانب رکھی جائیں تو ہمیں وہ پلڑا بہت بھاری نظرآئے گا - ہمیں تو فقظ ان کی حوصلہ افزائی
ہی کرنی جوکہ مشکل کام نہیں اور اسی  حوصلہ افزائی کے سبب آئندہ منعقد ہونے والے سمٹ اس شہر اور
 دیگر شہروں میں فروغ پائیں گے- 
مجھے اپنے خیالات کوتحریری شکل دینے اور اور لکھنے میں تاخیر ہوئی تو سبب  وہ  الفاظ  تھے جو مجھے اپنے
ان دوستوں کو شاباشی اور مبارک باد دینے کےلے نہیں مل پارہے تھے - اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے ملک اور زبان
کی ترقی میں حصے لینے اور اسے اپنا سمجھ کے حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے - خلوص نیت سے کیا گیا ہر کام بھی
اس سوشل میڈیا سمٹ کراچی 2015 کی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوگا -

جمعہ، 29 مئی، 2015

ہماری توجہ کے طالب پھول

4 تبصرے

تھیلسمیا خون کی کمی کی مورثی بیماری ہے - اس کی وداقسام ہیں تھیلسمیا مائینر اور تھیلسمیا میجر - اول الذکرمیں خون کے سرخ سیل کچھ کم ہوتے ہیں لیکن تھیلسمیا میجرمیں یہ انتہائی کم ہوتے ہیں اور اور مستقل کم ہوتے جاتے ہیں ان کو خون لگوانا پڑتا ہے جس پر ان کی زندگی کا انحصار ہوتاہے -اگر ماں اور باپ دونوں تھیلسمیا مائینر ہیں تو بچوں میں تھیلسمیا میجرکے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں -تھیلسمیا‮ ‬مائینر‮ ‬کے‮ ‬لئے‮ ‬کسی‮ ‬علاج‮ ‬کی ضرورت‮ نہیں‮ ‬ہوتی،جب‮ ‬کہ‮ تھلسمیا‮ ‬میجر‮‬ بچوں کو‮ ‬ہرماہ‮ ‬خون‮ ‬بدلوانے‮ ‬کی‮ ‬ضرورت‮ ‬ہوتی‮ ‬۔‮ ‬جسکی‮ ‬وجہ‮ ‬سے‮ ‬خون میں  فولاد‮ کی‮ ‬مقدار‮ بڑھ‮ ‬جاتی‮ ‬ہے  ‬اس‮ ‬سے‮ ‬جگر‮ ‬کو
نقصان‬ ‬ہونے‮ ‬کا‮ ‬خطرہ‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے۔‮ ‬خون‮ میں فولاد  کی زیادتی  کے ‬نقصان‮ ‬کو‮ ‬دور‮ ‬کرنے‮ ‬کے‮ ‬لئے‮ ‬دوائیاں‮ ‬دی‮ ‬جاتی‮ ‬ہیں ‬جس‮ ‬سے‮ ‬آئرن‮ ‬کی‮ ‬زیادتی‮ ‬میں‮ ‬کمی‮واقع‮ ‬ہو‮ ‬جاتی‮ ‬ہے-پاکستان میں 
ایک لاکھ سے زائد بچے اس بیماری میں مبتلا ہیںاور اس میں چھ ہزار  افراد   سال کی رفتار  سے اضافہ ہورہاہے-
 یہ تو تھی اس بیماری کی بنیادی معلومات جس کے بارے ہم میں سے اکثروبیشر احباب جانتے اور سنتے ، پڑھتے رہتے ہیں لیکن ہم اس کے روک تھام ،آگہی کا کام تو ایک طرف بنیادی انسانی فرض بھی ادا نہیں کرتے جو کہ خون کا عطیہ دے کیا جاسکتا ہے-طبی ماہرین کا کہناہے کہ ہمیں چاہئے کہ سال میںکم از کم دو سے تین بار خون کا عطیہ دیں تو صحت پر اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے-خون کا عطیہ دینے والے افراد صحت مند رہتے ہیں  دنیا بھر میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف تقریبا3سے4فیصد ایسے افراد ہیں جوکہ
 رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں جبکہ دیگر افراد کسی حادثات یا دیگر صورتوں میں خون عطیہ کرتے ہیں​-ہر وہ شخص جس کی عمر 18سے 50سالاور وزن تقریبا50کلو ہو وہ خون کا عطیہ دے سکتاہے​-اس کے علاوہ مالی تعاون سے ان بچوں کو ادویات اورخون کی فراہمی ممکن ہوسکتی -
ایک بچے کا اس بیماری میں ہرماہ خرچ دس ہزارروپے کے قریب ہوتا ہے جو غریب والدین تو ایک طرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنےوالے افراد کے لیےبھی انتہائی مشکل ہوتاہے - ہمارے ہاں اس بیماری کا مفت علاج کرنے والے ادارے فنڈز کی کمی کا شکار رہتے ہیں جس کے باعث اکثرغریب بچوں کو مکمل علاج کی سہولت میسر نہیں ہوپاتیں اور ان بچوں کی موت واقع ہوجاتی ہے-بچوں کی تکلیف کے ساتھ اُن کے والدین کی اذیت کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے-
ہمارے گھر میں جب کوئی بچہ معمولی سا بیمار ہوجاتاہے توہم اس سے زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس کا علاج فوری کرواتے ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہمیں استطاعت عطافرمائی ہے - لیکن جب ہمارے دفتر یا گھریلو ملازم اپنے بچے کی بیماری کا بتاتے ہیں تو ہم توجہ نہیں دیتے اورمدد اور ہمدردی تو ایک طرف  اکثر اسے بہانے بازی سمجھ لیتے ہیں - بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں اور ان کیتکلیف ہر ایک کو محسوس کرنی چاہیے یہی انسانیت کا تقاضا ہے - اکثر ہم میں جذبہ بھی ہوتا ہے اور ہم  اس  کےتحت کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن اپنی مصروفیاتمیں  بھول جاتے ہیں - تھیلسمیا میں مبتلا بچے موت سے ہرلمحہ جنگ کرتے ہیں اور ہماری توجہ کے طالب رہتے ہیں ہمیں ان ننھے پھولوں کو مایوس نہیں کرناچاہیے جن کے نازک بازؤں میں سوئیاں پوست ہوتی ہیں اور تکلیف سے دوچارہوتے ساتھ ہی ان کے نادار والدین جو در در دھکے کھاتے ہیں تاکہ اُن کی اولاد کی زندگی بچ جائے وہ  ہماری مدد کے منتظرہیں اور ہم اُن کی جانب متوجہ ہی نہیں کے ہمارے معمولی  مسائل اورتفریحات سے ہمیںفرصت ہی نہیں ملتی - تھلیسمیا کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریا  ں بہت ہیں  اس سے متعلق آگاہی کو عام کیا جائے اور ان افراد کی مدد کی جائے جو اس میںمبتلا ہوچکے ہیں اور شدید مالی مسائل اورمشکلات کا سامنا بھی کررہے ہیں- آئیے  دامے درمے سخنے ان پھولوں کو مرجھانے سے بچائیں-