ہمارے ہاں 80- 90 فیصد افراد اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو ضرورت پڑنے پرخون دیتے ہیں اور 10-20 فیصد پیشہ ورخون دینے والے بیچتے ہیں - خون کا عطیہ دینے والے والوں کی تعداد نا ہونے کے برابرہے اس کا ثبوت حالیہ رپورٹ اور خبرہے کہ کراچی کے بلڈ بینک میں خون کی قلت ہے جس کی وجہ سے مریضوں جن میں ہیموفیلیا اوربلخصوص تھیلسمیا کے مریض بچوں کو خون فراہم نہیں ہورہا ، تھیلسمیا خون کی کمی کی مورثی بیماری ہے جس میں مبتلا بچوں کو باقاعدگی سے خون لگتاہے اور ان کے والدین کویہ خون خریدنا پڑتاہے کیونکہ وجہ وہی ہے خون کے عطیات دینے کا ہمارے ہاں رجحان ہی نہیں- دنیا بھر خون کی عطیات دینے اور اس سلسلے میں آگہی کا کام ہورہاہے اور لوگ اس کارِ خیر اورانسانی حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک فرض کی طرح خون کےعطیات دیتے ہیں -
ایک خون دینے والے فرد سے تین مریضوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے جو اس میں شامل چاراجزاء
خون کے سرخ خلیات (packed cells)
پلیٹیلیٹس Platelets
پلازما Plasma
فیکٹرز (factor concentartes) مثلا فیکٹر VIII، فیکٹر IX وغیرہ
مکمل خون کی منتقلی کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اب مریض کو خون کا وہ جُز دیا جاتا ہےجس کی اُسےضرورت ہو۔ بہت کم ہی مریض کو مکمل خون لگایا جاتا ہے۔
ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے، ہر تندرست فرد ، ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے۔ جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے ۔ تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آ جاتا ہے ، اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ان کو جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوتی ہے۔ لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے۔
14جون کو ساری دنیا میں بلڈ ڈونرز یعنی خون کا عطیہ دینے والوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ 1868 میں آسٹریا کے ڈاکٹر کارل لینڈ شٹائنر کے یوم پیدائش کے موقع پر اس دن کا اجراء کیا گیا تھا جنہوں نے خون کو چار گروپوں میں تقسیم کرنے کے صلے میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خون کا عطیہ خود بھی دیں اور اس کارِ خیر کی ترغیب دینے کا سماجی اور انسانی فرض بھی ادا کریں - سب سے بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنے سالگرہ والے دن بہترین تحفہ خون کے عطیے کی صورت میں دیں - اسی طرح اپنی زندگی کے اہم ایام کی تاریخوں پر اس عمل کو دہرائیں ، خون کا عطیہ دینے کے لیے اپنے دوستوں اور دیگراحباب کو اس جانب مائل کریں اور ان کے ساتھ مل کر خون کے عطیات دیں -
مقامِ فکر یہ ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے بارے میں یہ خبرکہ بلڈ بینک خون کی قلت کا شکار ہیں تو دیگر چھوٹے شہروں کا کیا حال ہوگا جہاں طبی سہولیات کا فقدان بھی ہے اور دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ خون کی عطیات دینے والے افراد بھی کم آبادی کے باعث کم ہے
سیاستدانوں اور حکمرانوں کے رویوں اور بے حسی کی شکایت کرتے ہم عوام بھی ان کی تلقید کرتے جاتےہیں اپنے فرائض اور سماجی ذمہ داروں کو بُھولتے جارہے ہیں - خودغرضی اور نفسانفسی میں دوسروں کے لیے ہمدردی کے جذبے سے محروم ، درختوں کی کمی ، اخلاقی اقدارکے زوال سے دوچار ، مثبت رویوں کی کمی اورسماجی ذمہ داریوں سے غافل انفرادی اور اجتماعی طورپر دیوالیہ اور بےحس تو نہیں ہورہے؟
میں نے کئی بار خون عطیہ کرنے کے سے متعلق پڑھا، لیکن اس بلاگ سے جتنا بہتر سمجھ آیا، پہلے نہیں سمجھا :) جزاک اللہ!