ہفتہ، 17 دسمبر، 2016

تری یاد رُوئے مریم

2 تبصرے
دسمبر سرد ہوائیں اور یادیں لے کرآتاہے لیکن یاد وہ کریں جو بھولیں  - ان دنوں میں علی الصبح  جب اندھیرا ہوتا ہےکام پہ نکلتا ہوں بہت کم لوگ اس وقت سڑکوں پہ ہوتے ہیں مجھے محسوس ہوتا ہے میرے ساتھ میری والدہ چلی آرہی ہیں بس اسٹاپ تک ویسے ہی جیسے میں ساتویں جماعت میں تھا اور اپنے بڑے بھائی کے میٹرک کرنے کے بعد دور دراز اسکول تنہا جانے لگا 11 سالہ بچہ سردیوں کی صبح اندھیرے میں گھر سے نکلتا تو امی ساتھ آتی بس اسٹاپ تک - 22 دسمبر امی کے دنیا سے جانے کا دن ہے لیکن ہماری زندگیوں سے جانے کا نہیں - ماں باپ دنیا سے چلے بھی جائیں تو اولاد کی زندگی میں ہمیشہ رہتے ہیں خون کی گردش کی طرح محسوس ہوتے ہیں ، موذن کی اذان میں سنائی دیتے ہیں ، میری لیے تو امی  نظرآنے کا بھی انتظام کرگئیں میری بڑی بہنوں کی صورت میں جن کی شفقت کے سائے مجھ سے کم ہمت کو گرم سرد سے بچائے رکھتے ہیں-  امی کو کبھی شوق اپنائے نہ دیکھا ، نہ  فون پہ لمبی گفتگوکا شوق ، نہ شاپنگ کا ، نہ ٹی وی دیکھنے کا اور نہ ہی آرام کا - گھر کی بڑی بیٹی تھیں تو گھریلو کام کم عمری سے سیکھے اورکیے اس کے علاوہ ایک ترکھان کی بیٹی ہونے کے باعث بہت سے مردوں والے کام بھی با آسانی کیے لکڑی کا کام ، بجلی کا ، پلستر اور دیگر مرمت کے کام - میرے والد کافی عرصے تک ملک سے باہر قومی ائیرلائین میں ملازمت کے باعث مقیم رہے امی نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی وجہ  پیسے کی بچت اور اپنے گھر کی تعمیر تھی جس کی نگرانی وہ خود کرتی رہیں چھوٹے ماموں کے ساتھ مل کر-
امی شیرکی نظر سے دیکھنے کی قائل تھیں پٹائی کی ضرورت ہی نہ رہتی ہاں سونے کا نوالہ کھلانے کی بجائے سادہ کھانا خود بھی کھایا اور ہمیں بھی  اس عادی بنایا زبان کی چسکے غذا اور غیبت دونوں سے دور رہیں - محتلف مزاج کے اولاد کو پالنا اور ہم آھنگ اور یکجا رکھنا اُن کو بخوبی آتا، کبھی ایک سے دوسرے کی شکایت نہ سنی اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی مجھ سے روتو نے جب کچھ کہنا چاہا جواب  آیا " میں موجود ہوں اور دیکھ رہی ہوں کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی خاطرجمع رکھو"
امی کو میک اپ کرتے نہ دیکھا ان کی سادگی ان کا وقار تھی - گہنے پاتے ،تیز رنگ کے ملبوسات ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتے اور نہ ان کی وہ محتاج تھیں - امی شاید پیدائشی ماں تھیں ہماری ہی نہیں میاں جی ( ہمارے نانا) بے جی ( نانی) اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں ، نندوں اور دیوروں کی بھی - ان کو جہاں نرمی سے بات کہنی ہوتی وہ بھی جانتی جہاں سخت لہجہ اپنانا ہوتا وہ معلوم تھا ہمارے ساتھ چھوٹے ماموں کو بھی ڈانٹ پڑتی جو بی بی کہہ کے امی کے آگے پیچھے ہوتے
میرے نانا اور خالہ ماموں امی کواکثر بی بی کہہ کرپکارتے - امی  مجھ کمزور اور کم ہمت کو امریکہ بھیج کے میرے پیچھے دنیا سے گئیں میں ان کے آخری سفر کو نہ دیکھ سکا -  جس گھر ڈولی میں آئیں تھیں اسباب یوں بنے کے کراچی سے اپنے سسرالی گھر  گئیں وہیں سے دنیا سے رُخصت ہوئیں اور گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئیں -اللہ کی ذات بڑی دانائی اور حکمت والی ہے اُس نے مجھے امی کو اُس روپ میں کفن میں لپٹے ہوئے نہ دکھایا کہ مجھ سا کم ہمت کہاں تاب لاتا
تری یاد روئے مریم کہ مجھے اللہ کے گھرکی زیارت نصیب ہوئی تو روپ ساتھ بھیجا میری بڑی بہن کی صورت -
صاحبوں سچ کہوں تو میرے بڑے بہن بھائی ( ایک بھائی عمر میں چھوٹا لیکن عمل میں بڑاہی ہے)  مجھے ایک بچے کی طرح پال رہے ہیں یہ امی کی تربیت اور اللہ کا کرم ہے اس کی عطا ہے


ہفتہ، 23 جولائی، 2016

عثمانی طرزِ تعمیر کا شاہکار امریکہ میں Diyanet Center of America

3 تبصرے
ان دنوں ترکی خبروں میں ہے ہم نے بھی 15 جولائی کو وہاں کی ناکام فوجی بغاوت اور ترک عوام کا جذبہ دیکھا طیب اردگان کی مقبولیت دیکھی - اگلے دن ایک ترک طعام گاہ میں  ایک دوست کے ساتھ گئے تو ان سے میری لینڈ میں واقع ترک مسجد جوعثمانی طرزِتعمیر کا نمونہ ہے کا ذکرسنا ارادہ ہوا کیا جائیں اور دیکھیں جو تصاویر میں اتنی شاندار ہے اصل میں کیا قابل دید ہوگی - ہم نے ورجینا میں ایک دوست مدثرمحمود سے رابطہ کیا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا اُن کے مطابق ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں لیکن وہ اب تک وہاں نہیں گئے لیکن ہم آجائیں تو مل کر چلیں تو ہم کو اور کیا چاہیے تھا اس سنہری پیش کش کو سن کر نیکی اور پوچھ پوچھ - یوں بھی ہم مجرد آدمی کون سا اجازتوں وضاحتوں منتوں اور پس وپیش کا معاملہ تھا لہذا جاب پہ بتایا کہ ہم کو ایک دن کی چھٹی درکار ہے جو منظور ہی تھی بس رسمی اطلاع دینی تھی -
 آن لائن واشنگٹن کے لیے بس کی بُکنگ کروائی اور جمعرات کی شام وہاں تھے ورجینا سے دوست صاحب لینے کےلیےآئے رات ان کے گھر قیام کیا صبح ناشتے اور گفتگو کا سلسلہ 10بجے تک چلا پھر روانہ ہوئے،یہ اسلامی مرکز 2003 میں قائم کیا گیا جس کے لیے ترک حکومت نے تعاون کیا اس میں گیسٹ ہاوس ، میوزم ، زمین دوز کار پارکنگ موجود ہے
  میری لینڈ کا فاصلہ  وہاں سے 35 - 40 میل ہے - اُس شاہراہ پہ پہنچے تو مدثرنے ہمیں ایڈرس پہ نظرڈالنے کا کہا -- لیکن تو میں سامنے دائیں جانب کچھ فاصلے پہ اس مسجسم حُسن کودیکھ رہا تھا --- سبحان اللہ-
یہ جولائی کی ایک دوپہر تھی شفاف آسمان تلے دمکتی ہوئی مسجد کی عمارت کسی پوسٹ کارڈ تصویر سی لگ رہی تھی -


مسجد میں داخل ہوتے ہیں صحن میں وضو کی چوکی تھی جس پہ فوارہ آویزاں تھا
  
    وہاں سے ہی مسجد سے تلاوت قرآن پاک کی آواز آرہی تھی لحنِ داؤدی میں سورہ کہف کی تلاوت ہورہی تھی
مسجد کی آرائش اور فن خطاطی کو دیکھ کر مسجدںبوی ﷺ یاد آگئی - 

ایک پُروقارجواں سال قاری اور ان کے ساتھ دو اور افراد بیٹھے تھے - وقت پہ خطبہ ہوا پھر نماز اور اس کے بعد حالیہ فوجی بغاوت میں
شہید ہونے والے افراد کی غائبانہ نماز جنازہ اداکی گئی - اور وہ سب جو 15 جولائی کودیکھا سنا تھا اس کا ایک حصہ خود کو محسوس کیا -امام صاحب سے مصافحہ ومعانقہ پُرخلوص اور ان کی حسین شخصیت کے عین مطابق تھا - یہ ایک بہترین سفرتھا اور مسجد جانا اور نماز ادا کرنا یادگار رہا - اور یوں جو ہمیں استنبول جاکر صرف ائیرپورٹ سے دوسری پرواز کے انتظار میں شہر نہ دیکھنے خاص طورپر عثمانی طرزِ تعمیر ، نیلی مسجد اور دیگر عمارات کو دیکھنے نہ پانے کی کچھ تلافی ہوئی-





جمعہ، 6 مئی، 2016

یقین اُسی در سے ملتا ہے

3 تبصرے

مجھے یقین تھا میں پھر بُلایا جاؤں گا
کہ یہ سوال بھی شامل میری دعاؤں میں تھا
یہ یقین بھی اُسی در سے ملتا ہے ، وہیں سے عطا ہوتاہے اور یوں میں پہلی حاضری (حج) کے چھ ماہ بعد پھر وہاں حاضرتھا یقین کی دولت سے مالامال ہونے 
اپنی روح کو سرشارکرنے اُس کے کرم کا شکریہ ادا کرنے - کراچی میں دودن کے قیام کے بعد عمرے کے دس دن کے قیام کے لیے میں اور میرا چھوٹا بھائی جمعرات کی صبح مدینہ منورہ روانہ ہوئے سینے میں آرام بچھا  - وہ مقدس شہر  آقاﷺ کا شہر ، شہرِجاں ، شہرِ قرار گنبدا خضرا کا حسین اور سہانا منظرسرشاری سی سرشاری تھی - ہوائیں مانوس تھیں ، لوگ آشنا سارے ، روح میں بسے منظر آنکھوں کے سامنے - وقت عصرکا اورحاضری کا نماز ادا کی جنت البقیع کی بیرونی دیوار سے فاتحہ پڑھی سلام پیش کیا اور خاتون جنت سیدہ بی بی رضی اللہ عنہا سے عرض کی آپ کی  سفارش درکار ہے - کرم کے جھونکے آئے اور ہم دونوں بھائی  مسجد نبوی میں ریاض الجنہ جا پہنچے یونہی اچانک بناء کوشش کے کہ سفارش ہی ایسی تھی یقین سا یقین تھا - دو نفل ادا کیے اور سلام کےلیے روضہء آقاﷺ پہ پلکیں جھکا دیں کہ ادب کا تقاضا اور مقام یہی ہے - آقاﷺ کے روضے کے سامنے جو کفیت ہوتی اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا - 
 میرے ماموں زاد بھائی کامران اور نعمان ریاض سے ہمیں ملنے دوسری صبح بروز جمعہ آپہنچے اور دو دن ہمارے ساتھ رہے - ہمارے پاس اب مدینہ منورہ میں دون تھے اچانک بخار نے آلیا ---- اب نہیں اس بار بخارسے نہیں گھبرانا چڑھتارہے اس کی کسے پرواہ -قیام کا آخری دن نیم غنودگی تھی بخارکی حدت میرے بھائی نے ماتھا چھوکرکہا میں مسجد جارہاہوں تہجد کے لیے تم آرام کرو----- نہیں میں چلتا ہوں آج ہی تو موقع ہے بیماری ہے ، بیچارگی کی اُوٹ ہے آج ہی تو عرض کا موقع ہے یہی تو کرم کی گذارش کے سنہرے پل ہیں چادر لپیٹی اور روضہ پاک پہ حاضرہوں تو التفات کا زیادہ مستحق بن سکتاہوں ، عرض کی آقاﷺ میں ناتواں ، کمزورہوں ، گناہ گارہوں ، شرمسارہوں ، بیمارہوں مجھے اللہ کے حضورآپ کی سفارش درکارہے آپ رحمت لعالمین ہیں - ندامت تھی ، نقاہت تھی ، ساتھ ہی اُمید بھی یقین بھی کرم ہوگا ---- آپ ﷺ کب کسی کوخالی بھیجتے ہیں - وہ حاضری وہ سلام بڑا پُرکیف رہا - یقین کی ، کرم کی دولت ملے تو جسم ہلکا پھلکا ہوجاتاہے - نماز فجرادا کی سلام وداع کیا گندخضرا کو - عمرے کی تیاری کے لیے جائے قیام پہنچے احرام باندھا میقات کی جانب چلے نوافل ادا کیے نیت کی - مکہ مکرمہ
پہنچے تو مغرب ہوچکی تھی سامان رکھ کے حرم شریف آئے ، نمازعشاء کے بعد عمرہ ادا کیا - وہ خانہ خدا جلوہ جاناں پھرسامنے اب پھر دل کو ، نگاہ سنبھالنا تھا کہ دوران طواف رُخ کعبہ شریف کی جانب نہیں کرتے ، طواف کیا تو میرے بھائی نے دیوارِ کعبہ کو چُھونے کا کہا ، ہم چل پڑھے ، قدم مطاف میں نہیں کہیں اور پڑرہےتھے ، پرکیسے لگتے ہیں معلوم ہوگیا - 
طواف کعبہ تھا ، بے خودی تھی ، اشکوں کی موج لگی تھی بہتے جاتے تھے یہ مقام ان کو پھرکہاں ملنا تھا - کرم مانگا ، سفارش مانگی تھی سب ملا اور یوں ملا کہ حیران کردیا - ایک سہانی صبح طواف کیا ، حطیم میں نوافل--- حطیم خانہ کعبہ کا حصہ اور میرا غلیظ وجود ایک جھرجھری آئی تھی کہ ایک باد سحرجھونکا سرگوشی کرتا ، تھپکتا گذرگیا - صفیں بننے لگیں نماز فجر کی ہم بھی کعبہ شریف کے قریب جابیٹھے لیکن --- اُٹھادیے گئے ملال آیا ہاں میں کہاں اوراللہ کہاں آپ کا یہ دربار میں کمی کم ذات کمینہ سرجھکا کے چل پڑے آجاؤ صف بن رہی ہے ساتھ کھڑے ہو، سامنے ملتزم تھا تیسری صف تھی امامت ڈاکٹر شیخ بلیل کررہے تھے
لہن تھا قرآن کریم کی تلاوت ، حلاوت ، شرینی ، سرشاری - نماز یوں بھی ادا ہوتی ہے؟ یہ قرب مجھے مل سکتا ہے اے اللہ میں یہاں ملتزم کے سامنے اتنا قریب ؟
لگا کوئی ہاتھ پکڑے کے نماز کے بعد ملتزم تک لے گیا ، میرے ہاتھ تھے؟ کعبے کا دروازہ میرے بھائی نے میراہاتھ اُونچا کیا کہ میں ملتزم کو چُھو سکوں ، کسی نے پیچھے سے دھکیلا سینہ دیوارکعبہ سے جالگا --------- سب اُڑچکا تھا سب غبار ہو گیا سب پیچھے رہ گیا ، میں تھا میرارب تھا - 
وہاں سے کب ہٹا کیسے ہٹا یادنہیں پھر وہی سرگوشی وہی ہوا کا جھونکا آیا دیکھ لو میں تم سے کتنا پیارکرتاہوں ------ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر یہ یقین دلایا مجھے میرے اللہ نے، یہ یقین کی  دولت لے کے میں آیا ہوں کہ --- اللہ ہم سے بہت پیارکرتاہے ، بہت پیار کرتا ہے --- مجھ سے آپ سے ، ہم سب سے ، میرے جیسے کم فہمی اور کورچشم کوپاس بُلا کے ، پاس بیٹھا کے بتاتا کہ میری سمجھ میں یوں ہی آناتھا اور سمجھ والوں کو آپ سے شکرگزاروں کو وہ آپ کے شہرمیں بیٹھے بٹھائے سمجھادیتاہے- 

بدھ، 30 مارچ، 2016

مذمت یوں نہیں ہوگی

1 تبصرے

ہم اس دور میں ہیں جہاں خبربریکنگ نیوزہوتی ہے ، تماشا ہوتی ہے ، تصویر اور فلم کی شکل میں ہوتی ہے - بُرائی  ، فحش بات ، گالم گلوچ ، تشدد کو دکھا کر پھیلا کر بلکہ دہرا دہرا کر اس کی مذمت کا نام دیا جارہاہے - امریکی نومسلم دانشور
شیخ حمزہ یوسف  کہتے ہیں "اُمت مسلمہ کو جب کوئی بُری بات معلوم ہوتی ہے ، کسی فتنے اور شرکا پتہ چلتا ہے تو اس کو پھیلانے میں جوش وخروش سے حصہ لیا جاتاہے یہ اندرکا شرہوتاہے جو دراصل مذمت کے نام پہ عام کیا جاتاہے"-
مجھے اس بات کو سمجھنے کے لیے سوشل میڈیا ، ٹی وی اور اپنا گریبان دیکھنا پڑا، اپنی اور اپنے دوستوں کی  فیس بُک کی ٹائم لائین  پہ نظرکرنی پڑی سب سامنے آگیا- 
کبھی قابل اعتراض اشتہار کو پایا مذمت کے نام پہ اور تو اب مولویوں کی گالیوں سے مزین وڈیو موجودہے - کبھی جنید جمشید کی زبان کی لغزش کو عام کرکے گستاخ گستاخ کہا ہے - بُرائی کو بدی کو جُزئیات کے ساتھ بیان کرکے تصویری شکل میں فلم کی صورت  دکھا دکھا کراس پہ برہمی ظاہرکی جارہی ہے -
سوشل میڈیا پہ حق گوئی کے نام پہ بیباک تبصرے اور شرمناک جملے صرف نوجوان نسل ہی نہیں پکی عمر کے جہاندیدہ بُڈھے بھی پیش کرتے ہیں - ہم انسانوں سے نہیں شرماتے فحش کلامی اوربُری بات کہتے ہوئے اس کو دُہراتے ہوئے تو اللہ سے کیا شرم کریں - منافقت نہیں کرتے یہ کہہ کر اس کی کو آرڑ بنا کر بدزبانی کرلیتے ہیں 
وہ لطیفے اور بہیودہ جملے سوشل میڈیا پہ لکھ دیتے ہیں جو کسی بھی محفل کے آداب اور اخلاق کے منافی ہوں - ابلاغ اورآزائ اظہار کے کا نام پہ ہم مغرب کی تلقید کرنا چاہتے ہیں جو کہ ان معاشروں کو بھی اخلاقی طورپہ نقصان دے رہے ہیں ان میں تو پھر قانون کا احترام ہے ، کچھ قواعد وضوابط ہیں ہم تو ان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اللہ کے قانون کو جانتے ہیں ، مانتے نہیں سمجھتے نہیں - نئی لہر جو چلی ہے اس  میں  اب  اخلاق واقدار کا زوال اب سماجی  مسئلہ ہے  کسی نوجوان کی سوچ ، مولوی کی زبان پہ اعتراض کیوں سند قبولیت تو ہم اسے عام کرکے بخش رہے ہیں وہ وہ بات شائع کررہے ہیں کہہ رہے ہیں جو کبھی قابل بیان نہیں تھی وہ اب ہماری روزمرہ تماش بینی ، خبررسانی اور سماجی زندگی کا حصہ بن رہی ہیں -  سوچنا ہوگا رُکنا ہوگا ورنہ یہ طوفان بدتمیزی سب کچھ بہا لے جائے گا اور نہ اخلاق وکرداراور نہ ایمان محفوظ رہے گا ہمیں دانستہ اور نادانستہ طورپہ بُرائی کو عام کرنے کا حصہ نہ بننے کا ارداہ کرنا ہوگا- اپنی زبان کی حفاظت کرنے ہوگی مذمت گالیاں دے کر یا سنواکر نہیں ہوسکتی اس کے بہت سے مناسب طریقے ہیں - 
آقاﷺ کا فرمان ہے

 "مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے اور نہ لعنت کرنے والا، نہ وہ فحش گو ہوتا ہے اور نہ زبان دراز"

(رواہ الترمذي: ۱۹۷۷، والبھقي في شعب الاإیمان: ۵۱۵۰، ۵۱۴۹)

دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور شر سے محفوظ فرمائے -

بدھ، 3 فروری، 2016

بھلا بلاگر

2 تبصرے
 ایک  بھلا سا لڑکا بڑی مصعوم صورت والا آپ سے ملے گا آپ خوش ہوں گے اس کی خوش اخلاقی سے ، اس کی سادگی سے اورسب سے بڑھ کرکم گوئی سے آپ کو ہلاشیری ملے گی اس کو ایک سادہ لوح سابندہ جان کرکچھ رُعب اورعلمیت جھاڑنے کی مواقع نظرآنے لگیں گے آپ اگربلاگر ہیں تو مزید اس کو متاثرکرنے لگیں گے آپ اس کے کوائف اور ملازمت کے بارے جاننا نہیں چاہیں گے اس کو فہدکہیر کے دفتر کا کوئی چھوٹا سمجھیں ، اس کو چائے کا کہیں یہ مسکراکر حکم بجالائے گا اور پھر ہمہ تن گوش آپ کی گفتگو سننے لگے گا- آپ فہد کہیر کے کرک نامہ کی باتیں کریں اُرود زبان کی ترقی میں اپنا کردار بیان کریں یا اپنے اوصاف اور اپنے بلاگ کی مقبولیت کی باتیں کریں اس کو خاموش ہی پائیں گے - آپ اس کی بات سے اختلاف کریں گے تو یہ اس پہ اصرار نہیں کرے گا مؤدب اتنا کہ درست بات پہ بھی آپ سے بحث نہیں کرے گا -
کچھ ملاقاتوں پر معلوم ہوگا یہ ایک بلاگر اور کرک نامہ میں فہدکہیر کا شریک 
یہ بھلا لڑکا اب آپ کو بلا نظرآنے لگے گا اس کی ذہانت اس کے بلاگ پہ اس کی تحریریوں میں جھلکے گی ، اس کی مختصر اورمفید تحریریں آپ باربارپڑھنا چاہیں گے  اس کے ماحیولیات وسماجیات پر کام بھی آپ کو نظرآنے لگیں گے -اس کی کم گوئی میں آپ کوحُسن کلام کی سرگوشیاں سنائی دیں گی -
 اب اگرآپ سیدھے سادے اپنی نمائشی ذہانت اور شیخی خوریوں کو خیرباد کہیں اور اصل شخصیت پہ آجائیں تو اس کے دوستوں میں شامل ہوجائیں ورنہ چلتے پھرتے نظرآئیں کیونکہ یہ آپ کو علم تک نہیں ہونے دے گا کہ آپ صرف اس کے شناساؤں میں سے توہیں دوستوں میں سے نہیں----- لہذا اس بھلے بلاگر کو پہچان لیں اس کی خاموشی اور سادگی کی قدرکریں مجذوبوں سی کشش رکھنے والا یہ لڑکاذہین بھی ہے اور اپنے صبروسکون سے دلوں میں گھرکرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے -



جمعہ، 1 جنوری، 2016

ایک بچے کی کہانی

1 تبصرے
بہت سال پہلے کا قصہ  ہے ایک پانچ سالہ موٹے ، سانولے ، غبی اورپیٹو بچے کوکھانے پینے اورمحلے میں گھر گھرگھومنے کی سوائے کوئی کام نہ تھا صبح بیدار ہوتا تو اماں سے سوجی کا حلوہ کھانے کا تقاضا ہوتا جو پوراکیا جاتا باقاعدگی سے ماں نے روز اہتمام سے دوسرے بچوں کو اسکول روانہ کرنے کے بعد یہ ایک کام کواپنا ذمہ بنالیا یوں بچے کو روز سوجی کا لذیذحلوہ مل جاتا دوپہر تک وہ جی بھرکے کھاتا، ایک متوسط گھرانے میں یہ بچہ ضدی اورپیٹ پوجا کے سواء کچھ نہ جانتا اور چھوٹا ہونے کا بھرپورفائدہ اُٹھاتا رات کو بن مکھن --- یہ فرمائش ایسی ہوتی کہ کبھی پوری ہوتی کبھی ٹال دی جاتی لیکن اسے ضدکا ہنرآتا لہذا گھرکی چوکھٹ پہ لیٹ جاتا بطوراحتجاج ایسے میں پڑوس میں رہنے والے چچا اس کا یہ چسکہ پورا کرتے - لیکن صاحبو سیرپہ سوا سیر ہوتا ہے اس بچے نے اپنی حکومت میں پاکستانی حکمرانوں کی طرح بادشاہی اور مطلق العنانی چاہی کرپشن ، ہٹ دھرمی ، من مانی اور اپنے ہی پیٹ کو آگے رکھا پر اللہ نے اس پہ ایک شہزادہ لابیٹھایا ، اس سے پانچ سال بعد اس  دنیا میں آیا ، موٹو کو کوئی فکرنہ تھی ناہی اتنی عقل کے اب بادشاہی کادورختم ، ہسپتال میں بھائی کو دیکھنے گیا تو وہ انڈا کھاکرشہزادے کو نظرانداز کرکے فاتح سمجھ بیٹھا خود کو اجی ہوگا کوئی ہمارے اقتدار کو اس سے کیا خطرہ اپنی دھن میں لوٹ آیا ، محلے کے گھروں کا گشت کیا کہیں سے لڈو ، ٹافی ، اورکہیں سے بسٹک کھاکے کو موجیں مارتا رہا   محلے کے کئی گھرانوں میں کم گوئی اور اپنی مصومیت کے باعث ہردلعزیز بن چکا تھا لہذا کوئی فکردامن گیر نہ ہوئی - کچھ دن بعد شہزادہ گھر آگیا اس غبی نے کوئی توجہ نہ دی اپنی دنیا میں مست رہا پھر دن سرکنے لگے کانوں میں شہزادے کے حسن کے چرچے سنائی دینے لگے گھر میں تو سب ٹھیک رہا محلے میں شہزادے کو بناء کوشش کے مقبولیت حاصل ہونے لگی ، موٹو ٹھٹکا ہتھیار پھینک دیئے ، فرمائشیں موقوف اور دل میں شہزادے سے بیر پال لیا ، گورا ہے ہنہہ ہوگا، خوبصورت ہے ہوتا رہے ہم کو کیا موٹو جلنے لگا 
شہزادے کو مکمل نظرانداز کرتا لیکن وہ شہزادہ بھی بانکا تھا سرخ وسفید چمکتا دمکتا قدرت نے اُس کو موٹو سے بلکل مختلف صلاحیتیں عطا کی حُسن میں تو یوسف ثانی تھا ہی اطاعت وفرمانبرداری ، صبروسکون کا پیکربھی ، جمہوریت پسند شہزادے کے پاؤں پالنے میں ہی نظرآنے لگے اور لوگ اُس کے شیدا ہوئے اور وہ محلے کا لاڈلا بنا، موٹو نے کونا پکڑلیا پہلے گھرگھُسنا تھا بلکل ہی کام سے گیا - اس کو اب شہزادے سی کوئی قلبی لگاؤ نہ ہوسکا جلن بھی کسک سی رہی دھمیی سی انتقام سے خالی ، مارکٹائی کے بغیر - ڈرپوک اور بزدل تھا کندھے ڈھونڈتا تھا بڑے بھائی کا دامن پکڑے بہت سال گذارے پھر اُس نے عاجز آکے موٹو کے غبنی پن اورحماقتوں سے چڑکرجان چڑائی کسی حدتک -
اب موٹو تھا گھرمیں اور سامنے چمکتا چاند سا شہزادہ کہا جائے کیونکر نظرانداز کرے دل کڑا کرکے اُسے قریب جاکے دیکھا --- یہ کون ہے---- میرا بھائی---
شریکا ، غصہ ، حسد ، برادران یوسف کا سا ملال اورمنصوبے سب اُڑن چھو ---- یہ میرا بھائی ہے --- میرا چھوٹا بھائی اتا حسین اتنا سمجھداراتنا ذہین بس موٹو نے اس پہ تسلط جمالیا اب یہ اس کا بھائی تھا اس کا علاقہ ہاں بھئی کرو اس کی تعریف گاؤ اس کے حسن کے گیت سب میں  میرا حصہ ہے کیونکہ یہ میرا ہے -
 یوں موٹو نے پہلی بار اپنی عقل سے کام لیا اور باقی عمرشہزادے کی  عقل سے -اب سنتے وہ شہزادہ اُس موٹوکی عینک ، لاٹھی ، ڈکشنری ، encyclopedia ، اُس کا فخر اور اُس کے خوابوں کا امین ہے-