مشہورشخصیات اورمعروف ادیبوں سے لے کر ایک عام آدمی تک ماں کے رشتے اور حوالے سے جذباتی ہوجاتاہے اور اس کی عظمت کا اعتراف برملا کرتاہے ماں کے ہاتھ کے بنے کھانے کی تعریف کرنا اور اس کے ذائقے کوئی نہیں بُھولتا کیونکہ بلاشبہ ماں کا ہماری زندگی پہ بہت احسان اور اثر ہوتا ہے لیکن ہم باپکی قربانیوں ، اُس کے اپنے شوق ترک کردینے اور ہمارے لیے انتھک محنت کو کم کم ہی مانتے اور اس کے شکرگذار نہیں ہوتے – ماں کی ممتا کا ذکرتو بہت ہوگیا لیکن وہ وقت کب آئے گاجب اُس باپ کاہمارے لیے عمربھر مشقت کرنا بھی سراہا جائے محض” اُن کی ذمہ داری ہے ” کہہ کر جان نہ چُھڑائی جائے- کب اُن کے مشورے زیادہ اہم ہوں گے اورکب اُن سے ملنی والی رقم کو ہم اُن کے خون پسنے کی کمائی سمجھ کر احترام کرکے اُن کا شکریہ ادا کریں گے –
ہماری توقعات اور ضروریات زیادہ ہوتی ہیں والد کی کمائی سے ، ہمیں ہمیشہ یہی احساس ہوتا ہے ہمیں جیب خرچ کم ملتا ہے یہ احساس اُس وقت بھی نہیں ختم ہوتا جب ہم خودکمانے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ کس طرح سے اخرجات کو تقسیم کیا جاتاہے – ہم تاعمر اُس صبح گھر سے نکل کر دنیا کا مقابلہ کرنے اورہماری ضررویات ، تعلیم اور شوق حد یہ ہے شادی بیاہ تک کے اخراجات کے لیے محنت کرنے والے شخص کی اُتنی قدر نہیں کرتے بلکہ ذکر تک نہیں کرتے جو اُس کابے حد حقدار ہوتاہے اور عمرکا ایک بڑا حصہ ہمارے لیے وقف کردیتاہے –
جس کے پیروں تلے جنت تو نہیں لیکن وہی پاؤں دن بھر بھاگتے دوڑتے ہیں ہمیں اس دنیا میں آسائیشات اور جنت فراہم کرنے لیے اور اپنے وجود کو تھکا کرہمیں آرام فراہم کرنے ،نرم گرم بستر اور انواع واقسام کی نعمتیں فراہم کرنے کے لیے – جس کی شب وروز محنت ہمیں دنیا میں جنیے کے قابل بناتی ہے اباس کی کا ذکر بھی باآواز بلند ہونا چاہیے -میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا اس سائے کی سلامتی کو اس کی زندگی میں ہی بتادیں کے وہ ہمارے لیے بہت اہمیت اور معنی رکھتا ہے کبھی جب اپنے مشاغل سے فرصت ملے تو رات سونے سے قبل اُن کے ہاتھ تھام کر بوسہ دیں لیں کہ یہ سعادت یہ لمحے ہمشہ آپ کا نصیب نہیں ہوگے-
ایک شخص دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا، شکایت کی کہ میرا باپ میرا مال لے جاتا ہے جب کہ میری بیوی بھی ہے بچے بھی ہیں۔ باپ کو طلب کیا گیا اور اس پر عائد الزام بتایا گیا۔ وہ بولا: میں تو اس کے لئے تب بھی فکرمند ہوتا تھا جب یہ اپنی ماں کے پیٹ میں تھا، اور تب بھی جب یہ نہ بول سکتا تھا نہ ہاتھ پاؤں ہلا سکتا تھا۔ میں اس کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرا، اس کا پیٹ بھرنے کو پہلے سے زیادہ محنت کی، اس کی ذرا سی بیماری پر میرا آدھا لہو سوکھ جاتا تھا۔ یہ خوفزدہ ہوتا تو میری ٹانگوں میں پناہ ڈھونڈا کرتا۔ آج اس کو کچھ بھی یاد نہیں، کل اس کی اولاد اس کے ساتھ ایسا ہی کرے گی تو اسے یاد آئے گا۔
نبیء رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک اشکوں سے تر ہو گئی۔ اس جوان کا ہاتھ پکڑ کر باپ کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا: یاد رکھ! تو بھی اور تیرا مال بھی، تیرے باپ کا ہے۔