منگل، 9 جون، 2015

ایک خبرہی توہے

2 تبصرے


جب کسی بچے کی علاج نہ ہونے کے سبب انتقال کی خبرپڑھنے سننے کو ملتی ہے ذرا سا ضمیرسراُٹھاتاہے پھرہم حکومت کوکوسنے دےکراسے خاموش کرادیتے ہیں - حالانکہ ان معصوموں کو جنھیں علاج کی سہولت نہیں مل پاتی ان کی موت کے ذمہ دار ہم بھی ہوتے ہیں ہم جن کو ان کی مدد کی توفیق نہیں -ہمارے اردگرد بے بس اورلاچار افراد سرجھکائے نم آنکھوں سے زندہ لاشیں بنے پھرتے ہیں ، دفاترمیں ، مساجد میں اورہمارے گھریلو ملازمین میں جو ہم سے کبھی اپنے بچوں کی بیماری کا ذکرکرتے ہیں تو ہم پیزا آرڈرکرتے ہوئے ، ٹی وی پردلچسپ پروگرام دیکھتے ، اپنی وش لسٹ میں نئے سیل فون کا اضافہ کرتے ہوئے ان کی بات پر اول تو توجہ ہی نہیں دیتے اور جوذرا سن لیں تو ان کی بہانے بازی سمجھتے ہیں- فی زمانہ ہمارے اپنے بڑے مسائل ہیں جن میں جدید انٹرٹیمنٹ آلات کا حصول اور رات کے لیے فاسٹ فوڈ کا انتخاب سرفہرست ہیں-
پاکستان میں بچوں کو علاج کی مفت سہولیات، سرکاری ہسپتالوں اور پرائیوٹ پریکٹس کرنے والے معالجوں کا حال جاننے کے لئے کسی اعداد شمار کی ضرورت نہیں یہ خبریں بن کے سامنے آجاتے ہیں بے کسوں اور ناداروں کا حال بیان کرنے - ہم حکومت سے کس قسم کی توقع رکھتے ہیں جب ہم خود کسی کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں اور ایک معیارِ زندگی اور رویہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں تو دوسرا دیگر اپنے سے کم آمدنی والے لوگوں کے لیے - ہم تعلقات اور مفاد ات میں گھرے مجبور لوگ ہیں اور ایسے ہی مجبور سرکار اور سرکارے نمائندے ، سیاست دان اور ارباب اختیار- یقین جانیں وہ بھی ہماری طرح اپنی ذات کے حصارمیںگرفتار ہیں ان کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں وہ کسی کی دادرسی نہیں کرسکتے فرق صرف اتنا ہے ان کا رویہ واضح ہوجاتاہے اور ہماری منافقت اور بے حسی پوشیدہ رہتی ہے - ہمارے لیے ہرموت ایک خبرسے بڑھ کرنہیں ہوتیہم آسائشات ، خواہشات اور خودنمائی کی دوڑکے گھوڑے ہیں سرپٹ بھاگتے جنھیں پیچھے رہ جانے، گرجانے والے، زخمی ہونے والوں سے کوئی سروکارنہیں ہوتا ہم رُکیں گے تب جب خود گریں گے -ہمیں تو مذہب ہمدردی ، بھائی چارے اور شفقت اور دوسروں کے درد کا مدوا کرنے کی تلقین کرتا ہے تو یہ کسی اور کے لیے ہوتاہماری ذات پہ اس کا اطلاق نہیں ہوتا- میں دیکھ کر  حیران ہوتا ہوں امریکی معاشرے میں جم اوکانر جیسے افراد کو    جواسکول  میتھ کا ٹیچر ہے اور بچوں کے ہسپتال میں بطور والنتئیر کام کرتا ہے اور ناصرف بلامعافاضہ خدمات سرانجام دیتا ہے بلکہ سب سے زیادہ یہاں خون کا عطیہ بھی دیتا لیکن اس کی خبر اس کے طالب علموں اور اسکول کے عملے کو نہیں ہوتی جب اچانک  اس ہسپتال اس کا ایک شاگرد جاتاہے تو وہاں اپنے اسکول کا بتانے پر لوگ اسسے جم اوکانرکا پوچھتے ہیں "تم اُسے جانتے ہوگے" طالب حیران ہوتا ہے یہاں لوگ کیونکر اُس کے میتھ کے سخت گیر اُستاد کوجانتے ہیں جم اسکول میں اُصول ضوابط والا سخت اُستاد ہے جو تعلیم میں "فن" کو نہیں مانتا اور اپنے طالب علموں کو سختی سے توجہ علم کی جانب مرکوز رکھنے کیتلقین کرنے والا جم سونے کا دل رکھتاہے اور اپنا وقت معصوم بچوں کے لیے وقف کرتا ہے - یہ ترقی یافتہ معاشرے کا فرد ہے جس سے ہم بے انتہا متاثرہیں جن کی زبان ، ٹیکنالوجی ، فیشن ، موسیقی ، آرٹ اور اندازِ زیست ہمں بھاتا ہے ہم اس معاشرے میں ڈانلڈ ٹرمپ کی دولت کوتو دیکھتے ہیں لیکن جم اوکانر سے لوگ ہماری توجہ نہیں پاتے کیونکہ وہ انسانی ہمدردی کا بے شمار جذبہ تو رکھتے ہیں بے تحاشا دولت نہیں - ہمیں انسان سے اشرف المخلوقات بنانے اور اپنی ذات کے حصار سے باہر نکالنے والی کوئی صداسنائی نہیں دیتی خواہ وہ پانچ وقت فلاح کا بلوا ہو یاکسی معصوم کی علاج نہ ہونے      کے سبب موت کی خبر-

2 تبصرے:

  • 9 جون، 2015 کو 10:22 PM

    گستاخی معاف، خواب دیکھنا اچھی بات سہی اور اس کی تعبیر پا لینا اور بھی اچھی بات، مگر خوابوں کی تعبیر خالی خولی لفظوں کے زور پر نہیں ملا کرتی۔ اس کے لئے جان مارنی پڑتی ہے، خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے، ایثار و قربانی کا رویہ اپنانا پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا کام خود کرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ ایک لاشخصی شناخت ہے، اس کو برا کہہ لینا شاید سب سے آسان کام ہے۔ میں معاشرے کے لئے کیا کر رہا ہوں یہ بات اہم تر ہے اس بات سے کہ معاشرہ میرے لئے کیا کر رہا ہے۔
    شکایتی انداز اظہار تو وہاں بھی کچھ زیادہ نہیں جچتا جہاں آپ نے معاشرے کے لئے قربانیاں دی ہوں، چہ جائے کہ کچھ بھی کئے بغیر یہ توقع رکھی جائے کہ پہل معاشرہ کرے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کیوں نہیں! توجہ فرمائیے گا۔

  • 9 جون، 2015 کو 10:35 PM

    سامنے کی بات ہے کہ معاشرتی تعاون کی بنیاد تعلقات پر ہوتی ہے۔ اور تعلقات کی سطح اپنے اپنے طبقے میں بلندی پر ہوا کرتی ہے۔ حالات کی شناسائی بھی اپنے اپنے طبقے تک ہی زیادہ ہوتی ہے۔ غریب کو غریب کی ضروریات اور مجبوریوں کا پتہ ہوتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں پاتا۔ امیر کو امیر کی ترجیحات کا پتہ ہوتا ہے مگر وہاں کوئی ایسی بات کم ہی ہوتی ہے جہاں ایک کو دوسرے کی ضرورت محسوس ہو۔ نیچے جھانک کر دیکھنے والے کم کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ اوپر دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرنا فطری بات سہی مگر عملی طور پر اس کا حاصل اگر کچھ ہوتا ہے ایک احساسِ محرومی اور بس۔ آپ بھی تو اپنے سے نیچے والوں کو نہیں دیکھتے! اُن کے محرومیاں تو آپ سے بھی زیادہ ہیں۔
    بات بہت دل فریب نہیں پر کیا معلوم یہ تلخی ہی آپ کے دل میں اتر جائے! یا تو آپ کچھ کر گزریں گے یا پہلے سے بھی جائیں گے۔ کیا خیال ہے؟

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔