جمعہ، 1 جنوری، 2016

ایک بچے کی کہانی

1 تبصرے
بہت سال پہلے کا قصہ  ہے ایک پانچ سالہ موٹے ، سانولے ، غبی اورپیٹو بچے کوکھانے پینے اورمحلے میں گھر گھرگھومنے کی سوائے کوئی کام نہ تھا صبح بیدار ہوتا تو اماں سے سوجی کا حلوہ کھانے کا تقاضا ہوتا جو پوراکیا جاتا باقاعدگی سے ماں نے روز اہتمام سے دوسرے بچوں کو اسکول روانہ کرنے کے بعد یہ ایک کام کواپنا ذمہ بنالیا یوں بچے کو روز سوجی کا لذیذحلوہ مل جاتا دوپہر تک وہ جی بھرکے کھاتا، ایک متوسط گھرانے میں یہ بچہ ضدی اورپیٹ پوجا کے سواء کچھ نہ جانتا اور چھوٹا ہونے کا بھرپورفائدہ اُٹھاتا رات کو بن مکھن --- یہ فرمائش ایسی ہوتی کہ کبھی پوری ہوتی کبھی ٹال دی جاتی لیکن اسے ضدکا ہنرآتا لہذا گھرکی چوکھٹ پہ لیٹ جاتا بطوراحتجاج ایسے میں پڑوس میں رہنے والے چچا اس کا یہ چسکہ پورا کرتے - لیکن صاحبو سیرپہ سوا سیر ہوتا ہے اس بچے نے اپنی حکومت میں پاکستانی حکمرانوں کی طرح بادشاہی اور مطلق العنانی چاہی کرپشن ، ہٹ دھرمی ، من مانی اور اپنے ہی پیٹ کو آگے رکھا پر اللہ نے اس پہ ایک شہزادہ لابیٹھایا ، اس سے پانچ سال بعد اس  دنیا میں آیا ، موٹو کو کوئی فکرنہ تھی ناہی اتنی عقل کے اب بادشاہی کادورختم ، ہسپتال میں بھائی کو دیکھنے گیا تو وہ انڈا کھاکرشہزادے کو نظرانداز کرکے فاتح سمجھ بیٹھا خود کو اجی ہوگا کوئی ہمارے اقتدار کو اس سے کیا خطرہ اپنی دھن میں لوٹ آیا ، محلے کے گھروں کا گشت کیا کہیں سے لڈو ، ٹافی ، اورکہیں سے بسٹک کھاکے کو موجیں مارتا رہا   محلے کے کئی گھرانوں میں کم گوئی اور اپنی مصومیت کے باعث ہردلعزیز بن چکا تھا لہذا کوئی فکردامن گیر نہ ہوئی - کچھ دن بعد شہزادہ گھر آگیا اس غبی نے کوئی توجہ نہ دی اپنی دنیا میں مست رہا پھر دن سرکنے لگے کانوں میں شہزادے کے حسن کے چرچے سنائی دینے لگے گھر میں تو سب ٹھیک رہا محلے میں شہزادے کو بناء کوشش کے مقبولیت حاصل ہونے لگی ، موٹو ٹھٹکا ہتھیار پھینک دیئے ، فرمائشیں موقوف اور دل میں شہزادے سے بیر پال لیا ، گورا ہے ہنہہ ہوگا، خوبصورت ہے ہوتا رہے ہم کو کیا موٹو جلنے لگا 
شہزادے کو مکمل نظرانداز کرتا لیکن وہ شہزادہ بھی بانکا تھا سرخ وسفید چمکتا دمکتا قدرت نے اُس کو موٹو سے بلکل مختلف صلاحیتیں عطا کی حُسن میں تو یوسف ثانی تھا ہی اطاعت وفرمانبرداری ، صبروسکون کا پیکربھی ، جمہوریت پسند شہزادے کے پاؤں پالنے میں ہی نظرآنے لگے اور لوگ اُس کے شیدا ہوئے اور وہ محلے کا لاڈلا بنا، موٹو نے کونا پکڑلیا پہلے گھرگھُسنا تھا بلکل ہی کام سے گیا - اس کو اب شہزادے سی کوئی قلبی لگاؤ نہ ہوسکا جلن بھی کسک سی رہی دھمیی سی انتقام سے خالی ، مارکٹائی کے بغیر - ڈرپوک اور بزدل تھا کندھے ڈھونڈتا تھا بڑے بھائی کا دامن پکڑے بہت سال گذارے پھر اُس نے عاجز آکے موٹو کے غبنی پن اورحماقتوں سے چڑکرجان چڑائی کسی حدتک -
اب موٹو تھا گھرمیں اور سامنے چمکتا چاند سا شہزادہ کہا جائے کیونکر نظرانداز کرے دل کڑا کرکے اُسے قریب جاکے دیکھا --- یہ کون ہے---- میرا بھائی---
شریکا ، غصہ ، حسد ، برادران یوسف کا سا ملال اورمنصوبے سب اُڑن چھو ---- یہ میرا بھائی ہے --- میرا چھوٹا بھائی اتا حسین اتنا سمجھداراتنا ذہین بس موٹو نے اس پہ تسلط جمالیا اب یہ اس کا بھائی تھا اس کا علاقہ ہاں بھئی کرو اس کی تعریف گاؤ اس کے حسن کے گیت سب میں  میرا حصہ ہے کیونکہ یہ میرا ہے -
 یوں موٹو نے پہلی بار اپنی عقل سے کام لیا اور باقی عمرشہزادے کی  عقل سے -اب سنتے وہ شہزادہ اُس موٹوکی عینک ، لاٹھی ، ڈکشنری ، encyclopedia ، اُس کا فخر اور اُس کے خوابوں کا امین ہے-

1 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔