بدھ، 23 دسمبر، 2015

ہم کب ہم کب پہچانیں گے

2 تبصرے
فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ الْقُرْآن.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔‘‘
(صحيح، مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 512، الرقم : 746) 
یہ حدیث ہم نے کئی بارپڑھی سنی ہوگی لیکن ----- اس پر غورکرنے یا حضوراکرمﷺ سے محبت کا دعٰوی کرنے عید میلاد النبی ﷺ منانے والے اور اس
کی مخالفت میں ایک دوسرے کو سرے سے مسلمان نہ ماننے والے دونوں فریقین 
اپنی ساری توانائیاں اور محنت ایک دوسرے کی مخالفت میں سرف تو کرسکتے ہیں لیکن عمل کرنے ، اعتدال ، درگزر اور خلوص کو نہیں اپنائیں گے - ڈھونڈ ڈھونڈ کر مخالف نکتے یہ ثابت کریں  گے کہ ہم ہیں سچے مسلمان - کسی نے شرک اور بدعت کا شور برپا کررکھا ہے تو کسی نے محبت رسول ﷺ کو صرف جشن منانے اورایک رسم  نبھانا ہی سمجھ لیا ہے - ہم نے کبھی قرآن کریم کو سمجھنے کی ضرورت نہیں سمجھی اسے ثواب کی خاطرپڑھا ہے عمل کے لیے نہیں اسی طرح حضوراکرمﷺ کی ذات اقدس کو آپ کی سیرت کو عقیدت کی نظرسے تو دیکھا ہے محبت کا دعویٰ بھی کیا لیکن اس کو اپنانے کی کوشش نہیں کی - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حلم، بردباری، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی۔ ان رویوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر سوسائٹی میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی تحمل و برداشت کے ذریعے سوسائٹی کے اندر اعتدال و توازن قائم ہوتا  ہے۔ یہ رویہ انسانوں اور معاشروں کو پرامن بناتا اور انتہا پسندی سے روکتا ہے۔ ایسا معاشرہ ہی عالم انسانیت کے لئے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف حلم، تحمل، عفو و درگزر اختیار کرنا ہے اور آج ہم میں یہی نہیں - ہم عید میلاد النبی صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ایسے ہی مناتے رہیں گے اور یوں ہی اس کی مخالفت کرتے رہیں گے کیونکہ ہم اسی طرح خود کو مسلمان ثابت کرسکتے ہیں-
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا 
 اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَايَعْلَمُوْن.
باری تعالیٰ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے پہنچانتے نہیں ہیں۔
(صحيح مسلم، 4 : 2006، الرقم : 2599)
ہم کب پہچانیں گے اپنے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو-

( اس تحریرمیں چند سطوراور احادیث  ماہنامہ منہاج القرآن کے ایک مضمون سے لی گئی ہیں)

2 تبصرے:

  • 23 دسمبر، 2015 کو 10:46 PM

    جی

    بہت درست فرمایا آپ نے کہ ایک دوسرے کی مخالفت میں اپنی توانایاں زائع کر رہے ہیں اور آپس میں دوریاں بڈھتی جارہی ہیں دونوں فریق اپنے اپنے رویّوں کو درست اور حق بجانب سمجھتے ییں. ایسے میں کون کس کو سمجھائے کہ اعتدال و برد باری و تحمل کو اپنایا جائے. ایک دوسرے کی مخالفت میں حد سے بڑھ جانا اور بات بات پر کفر کے فتوے صادر کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے. نہ یہ مسلمانیت ہے نہ اسلام کی کوئی خدمت ہے جو وہ انجام دے رہے ہیں اپنے اپنے قول و فعل سے.

    نازنین ٰخان

  • 14 فروری، 2016 کو 12:28 PM

    بہت خوب حقیقت پر مبنی ایک تحریر

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔