آج میرے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے ایک ایسی بات کی جس پر حیرانگی کے ساتھ تفکر کے در بھی وا ہوگئے - وہ ایک کتاب لے کرآئے اور کہا کسی کو چاہیے تو وہ یہ کتاب لے لے ، میں سمجھا مستعار ہے پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ نہیں کتاب آپ رکھیں پڑھیں اور مناسب سمجھیں تو کسی اور کو دے دیں - مجھے پوچھنا پڑا آپ خود کیوں نہیں رکھ لیتے یہ کتاب اپنے پاس آپ کی کُتب کے ذخیرے میں اضافہ ہوگا ، جواب ملا کتابیں پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں جمع کرکے رکھنے کے لیے نہیں میں نے پڑھ لی تو اب اس کا حق کسی اور پرہے کہ وہ اسے پڑھ سکے -میں سوچنے لگا جو میں نے کتابیں جمع کرکے رکھیں ان پر کس کس کا حق ہوگا اورمیرے جیسے کتنے ہیں جو کتابیں جمع کرکے ان پہ پُھولے نہیں سماتے اور اس علم کی دولت پر سانپ بن کے بیٹھے ہیں اور جانتے تک نہیں کہ علم بانٹنے کے لیے ہے پڑھ بُک شیلف میں سجانے کے لیے نہیں- یہ کون سخی ہیں جو جمع کرکے نہیں رکھتے پڑھا اور آگے بڑھا دیا کتاب کی خوشبو کے یہ سفیر بڑے دل والے ہیں- بزُعم خود علم دوست ،کتابوں کے شیدائی اور قدردان سمجھتے ہوئے ہم حق تلفی کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟
بلاگ کا کھوجی
کچھ میرے بارے میں
حلقہ احباب
آمدورفت
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Blogger news
https://www.facebook.com/events/859017474135295/
Blogger templates
منگل، 18 اگست، 2015
4 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اپنے خزانے سے کچھ کتب مجھے بھجوادیں :)
خزانہ ہو علم کا تو اسے پہلاو جیسے آپ کی بلاگر سائٹ کررہی ہے اس سے آپ کے علم کے خزانے سے ہم بھی کچھ حاصل کر لیں
#2 عائشہ بی بی
شکریہ دراصل یہ خودکلامی ہے خود کو باورکرانا مقصودتھا کہ کتابیں بُک شلف میں سجانے اور ملکیت بنا کررکھنے کے لیے نہیں ان کو پانی کی طرح رواں رہنا چاہیے پڑھی اور کسی اور کو دے دی - ہاں چند کُتب ضرور ہوں لیکن سینکڑوں کتابیں اپنے تسلط میں رکھ کر کیا کریں گے :)
اچھی سوچ۔۔۔۔۔ عمدہ