جمعہ، 7 اگست، 2015

اتنا توکرسکتا ہوں

11 تبصرے



میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جس کی کئی نسلیں مغربی پنجاب میں آباد چلی آرہی ہیں لہذا مجھے قیامِ پاکستان  کے وقت ہجرت کرکے آنے والوں کے مصائب مشکلات اور قربانیوں کے واقعات اپنے بزرگوں سے سننے کو نہیں ملے مجھے یہ سب کتابوں اور ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوا  میں اس عظیم ہجرت کے ورثے سے محروم ہوں اور اکثرسوچتارہا میرے بڑوں نے اس ملک کے لیےقربانیاں نہیں دیں ان کو یہ مملکتِ خداد گھربیٹھے مل گئی - وطن کی محبت کے بارے میں مشکوک ہوں کیا مجھے اس سبزہلالی پرچم سے ایسا والہانہ لگاو ہے جیسا اس کا حق ہے - میں کس طرح اس ملک کے لیے جذباتی ہوسکتاہوں - مجھے اسکول ، کالج  میں اپنے ہم جماعتوں اور دوستوں سے ان کے بڑوں کی قربانیوں کا سن کر اپنا آپ کمترلگتا رہا- جشن آزادی جوش وخروش سے منایا کیونکہ میرے بچپن کا دور ایک ڈکٹیٹرکا دورتھا لباس قومی تھا، اسکول کا یونیفارم شلوارقمیض تھا ، ٹی وی پرملی نغمے تھے ، جوش وجذبے تھے ، 14 اگست کی تقریبات تھیں ، پرچم کشائی کا اہتمام تھا، ملک سے محبت کا اسلام کے ساتھ بول بالا تھا میں اس سے متاثررہا لیکن  مجھے بعد میں تجزیہ نگاروں ، اخبارات اور دیگرمعتبر ذرائع سے معلوم ہوا وہ آرائیں جرنیل تو ملک سے اسلام سے محبت کا ڈرامہ کرتا رہا اس نے مجھے نئی راہ دکھائی کیا پاکستان سے محبت کا ڈرامہ کیا جاسکتا ہے؟ جیسے کہ پہلے بیان کرچکا ہوں میرے بزرگوں نے پاکستان ہجرت نہیں کی تھی تو مجھے اپنے جذبات اور اس ملک سے محبت کا اظہار با آواز بلند کرتے جھجک رہی ،  اس پر ستم یہ کہ میں کچھ عرصے  سے بیرون ملک مقیم ہو ں چاہے یہ قیام عارضی ہی سہی اور چاہے پاکستان کی چاہ دل کو گرماتی رہے اس کے موسم یاد آتے رہے مجھےان پہ کچھ شک ساہے ، میں نیٹ کے محب وطن کا طعنہ سن کررو نہیں سکتا ،   تو یہ راہ بہتر ہے میں  پاکستان سے محبت کی کسک کو ڈرامے میں ڈھال لوں ، جب کوئی اس کے خلاف بات کرے ، اس پہ تنقید کرے تو سلگتا نہ رہوں، بے چین نہ ہوں بلکہ محبت کا نغمہ الاپ لوں زیرِ لب ہی سہی - کسی کو پاکستان پرلعن طعن کرتے دیکھ کر اس کا حق مان لوں اس پر آنکھیں نم نہ کروں ، دل کو دلاسہ دینا سیکھوں کہ اس کہنے والے کا حق اس ملک پرزیادہ ہے ، میں اس پاک دیس کے کونے کونے سے محبت کروں ،اس کے بارے میں مثبت سوچوں تو کیا کمال ہے ؟ مجھے اس کا روشن رُخ ہی نظرآتا   رہے تو اپنی کم عقلی جانوں کہ مجھے میں حقائق کی سمجھ نہیں ، اس ملک سے اُمیدیں وابستہ کروں تو کیا بڑی بات ہے کون سا اس طرح میرا حق ثابت ہوگا ، پاکستان سے محبت کرنے کا  اختیار مجھے نہیں  میں نےمیرےبڑوں نےمیرےبڑوں نے کیا ہی کیا ہے ملک کے لیے - چودہ اگست پہ  خوشی کا مجھے حق ہی کہاں ہے ، میرے بڑے بزرگ بھی ہجرت کرکے آتے تو میں بھیایک سانس میں دس گالیاں اس ملک کو دیتا ، دوقومی نظریے کو دھڑلے سے غلطی کہتا تو خود کو سچا پاکستانی سمجھتا- میں  ہجرت کرنے والے بزرگوں کی دل سے عزت کرتاہوں ان کے احسان ، ان کی قربانی کی قدر کرتاہوں لیکن اُس دوسری تیسری نسل کا کیا کروں جو مجھے نادم کرتی ہے ، بتاتی ہے کہ میرا اس ملک پہ حق ہی کیا ہے ، میں نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا - تو صرف یہی ہےکہسینے پر پرچم کا بیج لگا لوں سر کو جھکالوں - اپنے دل کی ہوک پہ پرچم کے بیج کو آویزاں کرسکتاہوںمیں انصار  کا بچہ اتنا سا ڈارمہ  تو کرسکتاہوں 

11 تبصرے:

  • 7 اگست، 2015 کو 11:37 PM

    عمدہ۔
    پاکستان بن گیا، یہ ایک عظیم کام ہوا۔ بنانے والوں، آگ اور خون سے گذر کر اِس کی طرف ہجرت کرنےوالوں کو سلام۔
    بن گیا تو اسے چلانا بھی ہے، اور جو اسےاچھی طرح چلانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے، انہیں بھی سلام کہ اس شجرِ سایہ دار کی نشونمامیں دن رات ایک کرتے ہیں۔
    اور اس درخت پر کلہاڑیاں چلانے والوں پر دو حرف خواہ وہ کسی کی اولاد ہوں۔

  • 8 اگست، 2015 کو 2:52 AM
  • 8 اگست، 2015 کو 3:04 AM

    آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں، بلکہ آپ کی نسل پر تو بہت کچھ لازم ہے۔ آپ کا اصل المیہ یہ ہے کہ آپ کے باشعور ہونے تک تاریخ بدل دی گئی، جھوٹ کا دور دورہ ہو گیا۔ چلتے چلتے اس ارائیں ڈکٹیٹر کے بارے بتا دوں کہ وہ اتنا بڑا ڈکٹیٹر نہیں تھا، جتنا اس کا پیش رو تھا (جو بغیر وردی کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا تھا)۔ یہ باتیں آپ کو کسی نے نہیں بتائی ہوں گی۔
    ڈراما کرنے کی ضرورت نہیں، حقائق کو جانئے تو آپ کو اس ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا شہری ہونے پر بھی فخر ہو گا۔

  • 8 اگست، 2015 کو 3:12 AM

    میں نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا، پر ٹوٹتے ضرور دیکھا ہے۔ ملک کو توڑنے والوں کو "ہیرو" بنتے دیکھنا پڑا ہے۔ اللہ اکبر ۔۔۔

  • 8 اگست، 2015 کو 7:54 AM

    عمدہ تحریر ہے. وطن سے دور محبت اور بھی خالص ہوتی ہے کہ اس میں ہجر کی تڑپ بھی شامل ہو جاتی ہے

  • 8 اگست، 2015 کو 6:46 PM

    محترم ۔ آپ نے بہت اچھا کیا یہ مضمون لکھ کر ۔ یہ مضمون جانے کتنے پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے ۔ آپ ڈرامہ ڈرامہ کہہ رہے ہیں اور مجھے اس میں سسکیاں محسوس ہو رہی ہیں جو ہماری قومیت ہماری بے اعتنائی اور بے وفائی کے نتیجہ میں لے رہی ہے ۔ صحافت کسی قوم کو اَوجِ ثریا پر پہنچا سکتی ہے اور تحت السرٰی بھی ۔ ہمارے ملک کی صحافت مادر پدر آزاد اور زر کی غلام ہے اس نے نجانے قوم کے کتنے ہونہاروں کو پٹڑی سے اُتارا ہے ۔ سُنا تھا کہ وکیل جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتا ہے لیکن صحافی کے سامنے وکیل بھی بونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔ اگست 1947ء سے قبل صرف دو اخبار مسلمانوں کے تھے زمیندار اور پیسہ اخبار ۔ پیسہ اخبار تو ہفتے میں ایک بار چھپتا تھا اور ایک آدمی دہلی سے بنڈل لے کر چلتا اور پشاور تک بانٹ کر واپس چلا جاتا تھا ۔ زمیندار روزنامہ تھا ۔ ان خباروں نے ہندوؤں کے بہت سے اخبارات کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں میں وہ روح پھونکی کہ کی قائد اعظم کی آواز ایک للکار بن گئی اور بالآخر پاکستان معرضِ وجود میں آیا
    ضیاء الحق تو آمر تھا ہمارے مہربان تو تو قائد اعظم پر بھی وہ بیانات اور کاروائیاں ثبت کرتے ہیں جو شاید قائد اعظم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں ۔ ضیاء الحق پر لگائی جانے والی تہمتیں اپنے خرافات پر پردا ڈالنے کی کوشش ہے ۔ کلاشنکوف کلچر ضیاء الحق نے نہین اُس کے پیش رو قائد عوام نے متعارف کرایا تھا ۔ افغانستان میں مداخلت کی ابتداء اور پاکستان مین کرائے کے فوجیوں کی تربیت بھی 1973ء میں قلعلہ بالاحصار میں ہوئی ۔ ضیاء الحق میں برائیاں بھی تھیں لیکن سب کچھ بُرا نہ تھا ۔ پاکستان توڑنے والے تین تھے ۔ اندرا گاندھی ۔ مجیب الرحمٰان اور ذوالفقار علی بھٹو ۔ یحیٰ خان نہیں تھا ۔ یہ چند نمون اسلئے لکھے کہ ہماری صحافت نے ہمیں ان کا اُلٹ سمجھایا ہے

  • 8 اگست، 2015 کو 11:43 PM

    آپ کی اس تحریر پڑھنتے ہوئے یہ جملے یاد آئے۔۔
    کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
    کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
    آپ نے دوسروں کی نظر سے دیکھ کر "عظیم ورثے" سے ناواقفیت اور" ہوک" کی بات کی۔ جبکہ ذاتی طور پر اس مملکتِ خداداد میں آپ یعنی اس سرزمین پر نسلوں سے بسنے والوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ حب الوطنی کے شک وشبے میں آنے والے طوفانی جھکڑ اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ یوں یہاں کے باسی اگراپنی جگہ بنانے میں ناانصافی اور مظلومیت کے درد سے ناآشنا ہیں تو دوسری طرف ملک کی نظریاتی سرحد کے دفاع کی ذمہ داری بھی اُن پر زیادہ ہے۔
    اور مٹی کی مہک سے دوری کا احساس اپنی مرضی یا قسمت کے چکر میں دربدر ہونے والوں سے بہتر کون جانے ۔

  • 9 اگست، 2015 کو 6:22 AM

    بہت شکریہ آسی صاحب ، محب علوی ، عامرمرزا ، محمود بھائی ، افتخار اجمل بھوپال صاحب سر آپ کا اس مضمون کا پڑھنا اور اس پرتبصرہ باعث عزت اورمسرت ہے میرے لیے -آپ کے تبصرے اسد کے بلاگ پرپڑھ کرخیال آتاتھا وہ دن بھی آئے گا جب آپ میری کسی تحریرپہ کچھ کہیں گے - نورین تبسم صاحبہ بے حد مشکورہوں آپ کے تبصرے اور حوصلہ افزائی کےلیے -

  • 11 اگست، 2015 کو 3:25 AM

    ایک دفعہ منصور مکرم کے ایک بلاگ پہ یہ تبصرہ کیا تھا، مکمل متعلق تو نہیں ــــــلیکن اتنا بھی غیر متعلق نہیں
    تعبیر تو دور کی بات۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔خواب بکھرے پڑے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔خواب تو دور کی بات۔۔۔ ۔۔۔ وہ نظریات جو سکول کے ابتدائی سالوں میں ہمیں پڑھائے سکھائے گئے تھے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ وہ کنفیوژن کا شکار ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔غزوہ فکری کا سماں ہے۔۔۔ ۔۔۔ کس لشکر میں شامل ہوا جائے اور کس جھنڈے کے نیچے جان دینے کا عزم باندھا جائے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔دشمن کون ہے اور دوست کون۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔میری پہچان سڑسٹھ برس قبل کے پاکستان سے ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔یا ساڑھے چودہ سو برس قبل کے اسلام سے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔یا اس سے بھی قبل کے جاٹ پختون یا بلوچ ہونے سے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یا محض آدم کا بیٹا ہونے سے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔پچھلے بیس برسوں نے ہم سے کیا کیا نہیں چھین لیا؟؟؟
    مگر اس بچے کے خواب تو عالمگیر سچائی ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔انسان ازل سے ان کی تلاش میں ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔دھرتی آنسو گراتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اور اجمل سراج کا شعر گنگناتی ہے
    سن یہ رونا نہیں گرانی کا
    یہ تو بے قیمتی کا رونا ہے

  • 11 اگست، 2015 کو 7:43 PM

    چیمہ صاحب کے ارشادات ابھی دو ایک روز پہلے کسی اور جگہ بھی دیکھے تھے۔
    وہ بچی کھچی وحدت جسے ٹوٹے 91 برس بیت گئے ، وہ جو 67، 68 برس کا پاکستان تھا، اسے دو لخت ہوئے بھی ساڑھے چار دہائیاں ہو چکیں۔ باقی ماندہ کو ہزار لخت کرنے کو اپنے ہی جگر گوشوں کو گرمایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ساڑھے چودہ سو برس پہلے اترے سرمدی پیغام میں واضح کر دیا گیا تھا۔ اس لئے کہ وہاں 1400، 1450، 14000، 14500 کی بات ہی نہیں۔ نہ وہ پیغام کسی خاص خطے یا نسل کے لئے ہے۔ امتوں کی زندگی ختم بھی ہو جائے، ان کے آثار ختم نہیں ہوا کرتے۔ اپنے ہی گھر کو دیکھ لیجئے: عاد و ثمود والی بدمستیاں اور تکبر، صدومیوں والی غیر فطری حیوانیت، اہل ایکہ والی مکاریاں، آلِ فرعون والے مظالم، یہود والی خود ستائیاں، نصرانیوں والی بے سمتی، اللہ پر عدم اعتماد اور اپنے تراشے ہوئے بتوں پر ایمان، اقدار کا زوال، نظریے کا یو ٹرن، حدود اللہ کی پامالی اور سیاسی حدود کی تقدیس۔ اور، اور، اور ۔۔ ۔۔ بے چینیاں، محرومیاں، پچھتاوے ختم ہو جائیں اگر اس پیغام سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑ لیا جائے۔
    ع: لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
    و ما توفیقی الا باللہ۔

  • 4 فروری، 2016 کو 12:16 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔